کھانے کے پیسے نہیں، قبر کا انتظام کیسے کروں؟ غریب آدمی نے اپنی ماں کی قبر اور کفن کا انتظام کیسے کیا؟

image

غربت کو لعنت سمجھا جاتا ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ امیر ہو جائے اس کےپاس ڈھیر سارے پیسے آجائیں لیکن غربت کی لکیریں انسان اپنے ہاتھوں سے مٹا نہیں سکتا ہے۔ یہ قسمت کا کھیل ہے۔ ایک شخص زندگی بھر محنت کرتا رہتا ہے کہ شاید مجھے کامیابی مل جائے گی، شاید میں اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہو جاؤں گا لیکن جب قمست کو منظور نہ ہو تو لاکھ کوششیں کرنے کے باوجود بھی دولت اور سکون کا گھر حاصل نہیں ہو پاتا۔ کچھ لوگوں کو شہرت تو مل جاتی ہےلیکن غربت سے نجات نہیں ملتی۔ ایسے ہی ایک شخص کی کہانی ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں جس کے والد گلی محلے میں ایک سٹیشنری کی دکان چلاتے تھے۔ والدہ ذات پات میں اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور شوہر کو ہمیشہ ہی کم ظرفی کا طعنہ دیتی رہتی ہیں۔

معاملہ کیا ہوا؟

والدین کی شادی گھر کے بڑے بزرگوں کی دوستی کے باعث طے پائی۔ والد سٹیشنری کی دکان چلاتے تھے اور اس میں گھر کا گزر بسر چلتا تھا۔ والدہ اور والد کے درمیان محبت سے زیادہ لعن طعن ہوتی تھی، دونوں اپنے خاندان کے متعلق منفی باتیں سننا پسند نہیں کرتے تھے لیکن ایکد وسرے کو بولنا نہیں چھوڑتے تھے، لہٰذا دونوں کی تلخیاں برقرار رہتی تھیں۔ لیکن جب بیٹا پیدا ہوا تو محبت بڑھ گئی، جوں جوں بیٹا بڑا ہونے لگا اور والد کو یہ پتہ چلا کہ بچے کی نظر کمزور ہے اور وہ زیادہ کمزور ہونے پر اندھا ہو سکتا ہے۔ اس پر باپ کے دل میں برائی بھی آئی، لیکن بیٹا اس قدر ذہین تھا کہ سب کو چپ کروا دیتا تھا۔ بیٹے نے خوب علم حاصل کیا اور جو کتابیں والد کی دکان پر فروخت ہونے کے لیے آتی تھیں وہ تمام کتابیں بچہ بیٹھ کر پڑھتا رہتا تھا جس سے اس کے علم میں اضافہ ہوتا رہا۔ ایک وقت آیا لوگ اسے محفلوں میں بلاتے تھے تاکہ وہ علم بانٹ سکے۔ لیکن جلد ہی والد کا انتقال ہوگیا اور گھر کا گزر بسر اس ایک دکان کی حد تک رہ گیا جو بعد میں معلوم ہوا کہ قرضے تلے ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ ذرائع آمدن بھی ختم ہوگیا۔ اس کے بعد بیٹے نے ایک سکول میں پڑھایا اور جلد ہی ادبی سرگرمیوں سے خود کو وابستہ کیا۔ یہ انگلینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے لیچفیلڈ میں 1709ء کو پیدا ہوا تھا۔ یہاں سے اس لڑکے نے لندن ہجرت کی اور وہاں بھی معاش کی غرض سے گیا۔ لیکن غربت نے ساتھ نہ چھوڑا۔ تھوڑا بہت جو کچھ کمایا وہ بچ نہ سکا۔ 19 سال لندن میں گزارے۔ بیٹے کی جدائی میں ماں بسترِ مرگ پر آگئی۔ جب کسی قریبی رشتے دار نے اس لڑکے کو خط لکھ کر انگلینڈ آنے کا کہا تو اس کے پاس صرف اتنے پیسے تھے کہ یہ یہاں سے واپس جا سکے۔ یہ جب ماں کے پاس گیا تو 2 دن بعد ماں کا انتقال ہوگیا۔ اس کے پاس ایک روپیہ بھی نہ تھا کہ ماں کی قبر اور کفن دفن کا انتظام کرسکے۔

ماں کی قبر اور کفن کا انتظام کیسے کیا؟

چونکہ تعلیم اور علم اس کے پاس بے تحاشہ تھا۔ اس نے ایک ناشر سے کچھ پیسے ادھار لیے اور اس سے وعدہ کیا کہ میں اس کے عوض تمہیں 1 ہفتے کے اندر ناول لکھ کر دوں گا ، ابھی تم مجھے پیسے دے دو، میری ماں مر گئی، میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں تو میں قبر کا انتظام کیسے کروں گا؟ میں ضرورت مند ہوں، مجھے پیسے دے دو، میں تمہارا قرضہ اتار دوں گا۔ پیسے لے کر ماں کی قبر اور کفن خریدا پھر دفنایا۔ اس کے بعد 1 ہفتے تک وہ گھر میں بند رہا اور دل لگا کر ناول لکھا۔ 1 ہفتہ مکمل ہوا اور اگلے دن ناشر کو دینے کے لیے گیا جس پر ناشر حیران ہوا کہ 5000 صفحات پر مبنی ایک ناول لکھ ڈالا تو اس نے اپنے متعلق بتایا کہ میں لندن میں یہی کام کرتا تھا لیکن مجھے ایک بزنس میں نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے میں ماں سے بھی دور ہوگیا اور دولت سے بھی۔ ناشر نے اس کا یہ ناول جلد ہی مارکیٹ میں اشاعت کے لیے پیش کر دیا۔

یہ شخص کون تھا؟

یہ ذہین شخص کوئی عام آدمی نہیں بلکہ انگریزی زبان کا ماہر ادیب، ناول نگار اور لغت نویس ڈاکٹر سیموئل جونسن تھے۔ یہ لندن کے جنٹل مینز میگزین کے مدیر بھی تھے۔ ان کی پہلی کتاب ایک پرتگیزی پادری کے فرانسیسی سفرنامے کا انگریزی ترجمہ تھا جس کو خوب پسند کیا گیا تھا۔ انگریزی زبان کی سب سے پہلی جامع انگریزی لغت بھی انہوں نے ہی تیار کی تھی۔

1 ہفتے میں لکھی گئی کہانی کیا تھی؟

حبشہ کے ایک بادشاہ کی کہانی اس میں لکھی گئی تھی جس کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی۔ اس کے بھائی بہن بھی ساتھ رہتے تھے۔ ان کو کبھی کسی چیز کی پریشانی نہ ہوئی لیکن وہ بادشاہ ایک محل کی چار دیواری کی زندگی سے پریشان ہوگیا، اس کا دل گھبراہٹ کا شکار ہوا۔ اس نے سفر پر نکلنے کا سوچا اور اس دوران اس نے ہر قسم کے لوگوں سے اپنا رابطہ رکھا چاہے وہ مہاراجہ ہوں یا کسی جگہ کے بادشاہ، کوئی عام موچی ہو یا صفائی کرنے والا۔ اس نے دیکھا کہ ہر شخص اپنی زندگی سے پریشان ہے۔ کوئی بھی حالات سے خوش نہیں ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts