مزاحیہ ڈرامے ہماری انٹرٹینمنٹ کے لیے بنائے جاتے ہیں، جن کو دیکھ کر دماغ دن بھر کی الجھنوں سے نکل جاتا ہے اور کچھ وقت ڈرامے کے ڈائیلاگز اور مزیدار سی کہانی کو دیکھ کر گزر جاتا ہے۔ مزاحیہ ڈرامے ہماری روزمرہ کے مشکل ترین روٹین میں موڈ فریش کرنے کے لیے اچھے سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اگر انہی ڈراموں میں اچھی اداکاری نہ ہو تو دیکھنے میں کوئی مزہ ہی نہیں رہ جاتا۔ ہم نے پچھلے رمضان دیکھا کہ مینو کا ڈرامہ چھپکے چھپکے آیا اور خوب چھا گیا، اس ڈرامے میں ڈائیلاگ اور پلاٹ بہت مزیدار تھا اور ہر کردار ایک خاص انرجی سے کام کر رہا تھا، اس میں عائزہ خان بھی اچھی لگ رہی تھیں، کردار سے مشابہت تھی۔

آج کل ایک ڈرامہ چوہدری اینڈ سنز آ رہا ہے جس میں سوشل میڈیا صارفین عائزہ خان کے کردار کو جہاں پسند کر رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں وہیں ان کے کردار کو بچکانہ اور احمقانہ کہا جا رہا ہے۔ ایک تو یہ ہر وقت پری پری کرتی رہتی ہیں، کوئی ڈائیلاگ بعد میں بولیں گی، پہلے پری پری بولیں گی۔ پری کو کھانا کھانا ہے، پری کو سونا ہے، پری کو پینا ہے، پری کو اچار چاہیے، پری کو گیم کھیلنا ہے، پری کو موبائل میں بیلنس ڈلوانا ہے، پری کو باہر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے، پری کا آخری پیپر ہے، پری کو پولیس سے ڈر لگتا ہے، پری کا دل گھبرا رہا ہے، پری پریشان ہو رہی ہے ۔۔

ارے ہر بات میں پری بولنا کوئی ضروری تو نہیں ہے۔ پری نہ ہو گئی کوئی پرستان کی رانی ہوگئی۔ ڈرامے میں دکھائی جانے والی اس طرح کی لڑکیاں اتنی احمق کیوں ہوتی ہیں؟ کیا ایسا عام زندگی میں ہو سکتا ہے کہ کوئی لڑکی اس قدر بے اختیار باتیں کرے اور کوئی یوں دادا کے دوست کے گھر جا کر رہنا شروع کردے۔ حیدرآباد دکن کا رہائشی بول کر گھر میں یوں مزے سے رہنے لگے، یہ کیا کہانی ہے؟ کیا اس کا کوئی سر پیر جڑتا ہے؟ اور پھر غیروں کے گھر میں یوں ملنا جلنا، مالک مکان دادا کے بیمار پڑنے پر کرائے سے رہنے والی دادی کا بے اختیار اُٹھ کر جانا یہ کس گھر کا اصول ہے؟
عائزہ خان کو سمجھنا چاہیے وہ اب کوئی 18 سال کی لڑکی نہیں ہے، اب کم سے کم ان کو ایسے کردار تو نہیں کرنے چاہئیں۔ اگر کر بھی رہی ہیں تو کچھ بات بھی تو سمجھ آئے، پری نام ہونے سے پری والے کام تو نہیں ہو جائیں گے؟ کیا ایسا عام زندگی میں ہوسکتا؟
پھر مالک مکان کے گھر پر موجود جوان سالہ بیٹا بھی ہے، جس کے ساتھ دوستی کا رجحان دکھایا گیا ہے۔