میرے تیسری بار جڑواں بچے پیدا ہوئے۔۔ تین بار جڑواں بچوں کی ماں بننے والی عورت کی انوکھی کہانی

image

"ہم تیسری بار جڑواں بچوں کی پیدائش سے بہت خوش ہیں کیوں کہ ہم کو ہمیشہ سے بڑے خاندان کی خواہش تھی"

یہ الفاظ ہیں 37 سالہ کمبرلی الارکون کے جنھوں نے حال ہی میں تیسری بار جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر کمبرلی اور ان کے شوہر کے پہلے ہی 8 بچے تھے جن میں دو بار جڑواں بچے پیدا ہوئے اور اب تیسری بار کے بعد ان کے بچوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے۔

یہ بچے قدرتی طور پر پیدا ہوئے

کمبرلی کے ہاں اس بار دو بیٹیاں پیدا ہوئی ہیں جن کے نام انھوں نے کینزی اور کینزلی رکھے ہیں۔ کمبرلی نے جڑواں بچوں کی پیدائش کے لئے کوئی دوائیں نہیں کھائیں۔ ماہرین کے مطابق تیسری بار قدرتی طور پر جڑواں بچوں کی پیدائش کا چانس دو لاکھ میں سے صرف ایک بار ممکن ہے۔

جڑواں بچے پیدا ہونے کی وجوہات

باڈی ماس انڈیکس کا زیادہ ہونا

حال ہی میں برطانیہ، فرانس نائجیریا اور ڈنمارک کے تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن خواتین کا بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) 30 یا اس سے زائد ہو تو ان کے گھر جڑواں بچے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، واضح رہے کہ باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) سے آپ کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آ پ کے قد کے حساب سے آپ کا وزن کم ہے؟ سہی ہے؟ زیادہ ہے؟ یا بہت زیادہ ہے؟ ۔

فیملی ہسٹری

اگر ماں باپ میں سے کسی کی فیملی ہسٹری میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہو تو اگلی نسل میں بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات میں ساٹھ فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے، تاہم ممکن ہے کہ اگر ماں کے خاندان میں جڑواں بچوں کی ہسٹری ہو تو امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ باپ کے خاندان کی ہسٹری میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات کم ہوتے ہیں-

عمر رسیدگی

سائنس کہتی ہے کہ اگر ماں کی عمر تیس سال سے زيادہ ہو تو اس کے حمل ٹہرنے کی صورت میں بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تیس سال سے زیادہ عمر کی عورت میں ایک سے زیادہ انڈے خارج ہوتے ہیں۔

قد اور وزن

عام طور پر لمبے قد اور صحت مند جسامت والی عورت کے جڑواں بچوں کے پیدا کرنے کے امکانات چھوٹے قد اور کمزور جسامت والی عورت کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، یعنی وہ عورتیں جن کا وزن اور قد کم ہو ان میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے زیادہ امکان ہوتے ہیں، یہ وجہ تھوڑی عجیب ہے تاہم اس وجہ کے بارے میں سائنسی ماہرین حتمی طور پر کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts