کرنٹ کے جھٹکے دے کر مارا گیا ۔۔ دنیا کا پہلا بچہ، جسے کرنٹ کے جھٹکوں کی سزادی گئی، اس کے ساتھ کیا ہوا؟

image

سوشل میڈیا پر ایسے کئی واقعات موجود ہیں جو کہ سب کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں، لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کہ حیرت کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔

دنیا بھر میں مجرمان کو عام طور پر پھانسی کی سزا دی جاتی ہے، لیکن امریکہ کی تاریخ کا ایک ایسا کیس بھی موجود ہے جب 14 سالہ بچے کو کرنٹ دے کر سزائے موت دی گئی۔

14سالہ افریقی نژاد امریکی بچہ جیورج اسٹنی اپنے والدین کے ہمراہ جنوبی کیرولائنا کے شہر الکولو کے مل ٹاؤن میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھا، سیاہ فام فیملی سے تعلق رکھنے کی بنا پر اس بچے کے ساتھ آگے جا کر کیا ہونے والا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

1944 میں ہی ان دنوں جنوبی کیرولائنا میں ریلوے ٹریک موجود تھی جس کے ایک طرف سفید فام رہائش پزیر تھے تو دوسری جانب سیاہ فام رہتے تھے۔ یہ بارڈر نما ریلوے ٹریک واضح کر رہا تھا کہ سیاہ فاموں کو اس وقت سے ہی تکالیف کا سامنا ہے۔

جیورج پر اس وقت مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جب اس چھوٹے سے بچے پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے 11 سالہ بچی بینیکر اور 7 سالپ تھیمز کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے قتل کیا۔

لیکن اس سب میں جیورج کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے کیونکہ جس دن دونوں کمسن بچیوں کی لاشیں ملیں، اس دن سے ایک دن پہلے بینیکر اور تھیمز نے جیورج اور اس کی بہن سے ملاقات کی تھی اور یہ پوچھا تھا کہ یہاں آس پاس پھول موجود ہیں یا نہیں۔

اس کیس کی تحقیقات کرنے والے افسر کا کہنا تھا کہ جیورج نے میرے سامنے دونوں لڑکیوں کو زیادتی کی کوشش کے دوران قتل کیا، تاہم اس اعترافی بیان کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکا، یعنی ایک افسر کو گواہ بنا کر معاشرہ اس بچے کو گناہ گار تصور کر رہا تھا۔دونوں کمسن بچیوں کی لاش کا میڈیکل معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ دونوں لڑکیوں کے جسم پر مزاحمت کے نشانات نہیں ہیں، لیکن دونوں لڑکیوں کی موت انتہائی تکلیف دہ تھی، کیونکہ دونوں کو ہیڈ انجریز ہوئی تھیں، جبکہ چہرے پر بھی زخم واضح تھے۔

لڑکی کی موت کے ماہ بعد جب جیورج اسٹنی کا ٹرائل شروع ہوا تو جیورج کے خود اٹارنی بھی خاصہ کمزور دکھائی دیے، یہاں تک کے وہ کورٹ روم میں بالکل اکیلا تھا، کیونکہ والدین بھی بچے سے نہیں مل پا رہے تھے کہ کہیں سفید فام افراد مشتعل ہو کر حملہ نہ کر دیں۔

اور پھر اسی ایک پولیس افسر کے اعترافی بیان کی بنا پر جیورج کو بذریعہ کرنٹ سزائے موت کا حکم دیا۔ جب جیورج کو آخری مقام پر لے جایا گیا اور اسے کرسی پر بٹھا کر ہیلمٹ پہنایا گیا تو ہیلمٹ بھی چھوٹا تھا، یہاں تک کہ اس مشین کو چلانے جلاد کو بھی اس بچے کو کرسی پر بٹھانے میں مشکلات پیش آئیں۔

پھر جیورج سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی جس پر جیورج نے کہا کچھ نہیں، یہ سن کر موقع پر موجود افسران بھی حیران تھے مگر پھر اچانک 2400 وولٹ کا جھٹکا جیورج کے جسم میں داخل کیا، جس سے جیورج کی آنکھیں کچھ اس طرح کھلی کہ بڑی ہوتی گئیں اور آنسو بھی بے ترتیب جاری ہونے لگا، یہاں تک کے منہ سے تھوک بھی گرنے لگا تھا۔ اور پھر چند ہی لمحے بعد یہ ننھی جان اس کرنٹ کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

2014 میں جیورج کی بہن نے عدالت سے رجوع کیا اور بتایا کہ جیورج اس دن بھی میرے ساتھ تھا۔ ساتھ ہی جیورج کا ساتھ جو شخص جیل میں تھا، اس نے بتایا کہ جیورج بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ جانی میں نے کچھ نہیں کیا، یہ مجھے کیوں مارنا چاہتے ہیں، جبکہ میں نے کچھ نہیں کیا۔

یوں اس طرح 70 سال بعد جیورج کو اس جرم سے بری کیا گیا جب کہ اسے اب اس قید کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ وہ اب اس دنیا میں تھا ہی نہیں۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts