محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ آپ کی کامیابی شور مچا دے۔ ان الفاظ کا منہ بولتا ثبوت یہ نوجوان ہے جس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کے والد دنیا سے چلے گئے اور وہ والدہ کے ساتھ مزدوری کرنے لگا۔
جی ہاں اس شخص کا نام ہے ڈاکٹر راجیندرا بھاروڈ ہے اور یہ بھارت کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ہے جس کا نام سمود ہے۔
راجیندرا کہتے ہیں کہ جب وہ اس دنیا میں آنے والے تھے تو والد کا انتقال ہو گیا ۔ یوں والدہ کملا بائی پر 3 بچوں کی زمے داری آ گئی جس کی وجہ سے ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے لگے۔ ماں اور دادی مل کر گاؤں میں ایک چھوٹا سا کاروبار کرتیں تھیں جس سے پورے دن میں صرف 100 روپے کمائی ہوتی تو ہمارے گھر کھانا پکتا تھا۔
گھر بھی پکا اور عالی شان نہیں تھا بلکہ کچا تھا ۔ لیکن والدہ نے بہتر مستقبل کیلئے ہمیں پڑھانا شروع کیا ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں سے ہی حاصل کی پھر ایک دن استاد نے کہا کہ یہاں 150 سو کلو میٹر دور ایک گاؤں ہے۔
جہاں ایسے قابل بچوں کی تعلیم کا خرچہ حکومت ادا کرتی ہے آپ اسے وہاں پڑھائیں۔ یہی ہوا کہ جب میں نے اس اسکول میں پڑھا تو حساب اور سائنس کے مضمون میں اسکول بھر میں بوڑڈ کے امتحانات میں ٹاپ کیا۔
جس کی وجہ سے مجھ کو میڈیکل کالج میں اسکالر شپ میں داخلہ مل گیا جس پر خوشی کی انتہا نہ تھی کیونکہ بچپن کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا، ہمیشہ سے ہی چاہتا تھا کہ ڈاکٹر بن کر عوام کی خدمت کروں پھر سوچا کہ بہتر زندگی انسان کا پہلا حق ہے تو ڈاکٹر کی پڑھائی کے ساتھ ہی میں نے آئی اے ایس کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔
ایک کمپیوٹر بن گیا تھا ہمیشہ پڑھتا رہتا تھا، کبھی دوستوں کے ساتھ سیرو تفریح کیلئے نہ جاتا، مہنگے مہنگے کپڑے نہیں پہنتا اور فضول خرچی بھی نہیں کرتا۔ پھر اوپر والے دن ایک دن میری بھی سن لی اور میڈیکل کی پڑھائی کے آخری سال میں آئی اے ایس کا امتحان دیا جو اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ جس کے بعد کلیکٹر کا عہدہ ملا۔
یہ خوشی لے کر گاؤں پہنچا تو ماں اسی طرح میرے لیے محنت کرتی نظر آئی، جب انہیں یہ خبر سنائی تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ ہوتا کیا ہے البتہ میرے سمجھانے پر وہ خوشی سے رونے لگیں اور پورے گاؤں میں میری کامیابی کی خبر پھیلا دی سج پر پڑوسی آئے، مبارکباد دی اور کہنے لگے کہ بیٹا کنڈیکٹر لگے ہو تم۔