انڈیا کا وہ فراڈ جس سے جڑے 40 لوگوں کی موت پراسرار حالات میں ہوئی

اس گھپلے میں دلالوں، سیاستدانوں اور افسروں کے نیٹ ورک نے 20-22 سال کے نوجوانوں کو پی ایم ٹی (پری میڈیکل ٹیسٹ)، انجینئرنگ وغیرہ میں داخلے کے امتحانات فراڈ کر کے پیسے کے عوض بیچ ڈالے تھے۔ سینکڑوں نوجوان مدھیہ پردیش جیل کی سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹنے کے بعد آج بھی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
متاثرین کے والدین
Getty Images

یہ سنہ 2012 کی بات ہے جب انڈیا کے وسطی شہر اجین میں ریلوے ٹریک پر ایک 19 سالہ لڑکی کی لاش ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ دم گھٹنا بتایا گیا تھا۔

پولیس نے پہلے اسے قتل کا معاملہ قرار دیا اور اس قبائلی لڑکی کی لاش کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا گیا لیکن بعد میں پوسٹ مارٹم ہوا تو موت کی وجہ خودکشی قرار دی گئی۔

جھبوا ضلع کی نمرتا ڈامور کے والد مہتاب سنگھ نے حال ہی میں مجھے بتایا کہ ’نمرتا کو ویاپم سے متعلق معاملات کا علم ہو گیا تھا اسی لیے اسے قتل کر دیا گیا۔‘

جب مہتاب سنگھ مجھ سے بات کر رہے تھے تو میرے جسم میں ایک کپکپی سی دوڑ گئی کیونکہ جس صوفے پر میں بیٹھا تھا اسی صوفے پر سنہ 2015 کی ایک دوپہر کو مجھ جیسا ہی ایک صحافی بیٹھا تھا جو اچانک اور پراسرار طور پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔

نمرتا ڈامور کی مشتبہ موت اور ویاپم سکینڈل کی تحقیقات کے دوران آٹھ سال پہلے نیوز چینل ’آج تک‘ کے رپورٹر اکشے سنگھ یہاں مہتاب سنگھ کے گھر پہنچے تھے۔ مہتاب سنگھ نے بتایا کہ چائے پینے کے بعد اکشے سنگھ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور ان کی سانسیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔

ویاپم یعنی پروفیشنل ایگزامینیشن بورڈ سکینڈل سے جڑے تقریباً 40 افراد کی مشتبہ حالات میں موت ہوئی جس نے اس معاملے کو مزید خوفناک اور پراسرار بنا دیا۔

اس گھپلے میں دلالوں، سیاستدانوں اور افسروں کے نیٹ ورک نے 20-22 سال کے نوجوانوں کو پی ایم ٹی (پری میڈیکل ٹیسٹ)، انجینئرنگ وغیرہ میں داخلے کے امتحانات فراڈ کر کے پیسے کے عوض بیچ ڈالے تھے۔ سینکڑوں نوجوان مدھیہ پردیش جیل کی سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹنے کے بعد آج بھی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔

اب لوگ اس معاملے پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ صحافیوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اس معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش کرنا خطرناک ہے جبکہ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تمام اموات قدرتی ہیں جن کا ویاپم سے کوئی تعلق نہیں۔

ان مشتبہ اموات کے بعد معروف میگزین ’اکانومسٹ‘ نے امتحانی گھپلے پر اپنی رپورٹ کا عنوان ’ڈائل ایم فار مدھیہ پردیش‘ رکھا ہے۔

’دی اکانومسٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں اس فراڈ کا کل تخمینہ تین ارب ڈالر (تقریباً 240 ارب روپے) بتایا ہے۔

نمرتا ڈامور
BBC
نمرتا ڈامور

ویاپم کا وسیع نیٹ ورک اور سیاست

ویاپم گھپلے کی تحقیقات کے سلسلے میں اندور ہائیکورٹ میں 10 اگست کو ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔

اس معاملے کو منظر عام پر لانے میں پارس سکلیچا پیش پیش تھے۔ انھوں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی شکایت میں ایک مخصوص مدت کے اندر کارروائی کرنے کا حکم جاری کرے جو دسمبر 2014 سے زیر التوا ہے۔

رتلام کے سابق آزاد ایم ایل اے پارس سکلیچا نے اپنی شکایت میں ریاست کے وزیر اعلیٰ، بڑے افسران اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ سکلیچا 2017 سے کانگریس پارٹی کے رکن ہیں۔

پارس سکلیچا کا کہنا ہے کہ انھوں نے پری میڈیکل ٹیسٹ (پی ایم ٹی) گھپلے کی معلومات سنہ 2009 میں ہی وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو دی تھیں، جس کے بعد اس فراڈ کی تحقیقات کے لیے دسمبر کے مہینے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

رتلام میں اپنے گھر پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’کمیٹی کی تشکیل اور وزیر اعلیٰ کی جانب سے سخت کارروائی کی یقین دہانی کے باوجود یہ فراڈ چار سال تک چلتا رہا بلکہ اس کا دائرہ بڑھتا گیا، اس لیے لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ اس سکیم کو روکنے کے لیے پرعزم اور سنجیدہ نہیں تھے۔‘

’آپ کے پاس محکمہ ہے، آپ تحقیقات کی بھی بات کر رہے ہیں، پھر بھی گھپلہ جاری ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ شیوراج سنگھ چوہان کے ملوث ہونے کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔‘

ہر طرح کے سیاسی ہنگامہ آرائی، دباؤ اور چیف منسٹر آفس کے ایک اہلکار کی گرفتاری کے باوجود شیوراج سنگھ چوہان سے اس معاملے میں کبھی پوچھ گچھ تک نہیں ہوئی۔

ظاہر ہے کہ ان کے خلاف کبھی کسی قسم کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان گووند مالو ان الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس معاملے میں جو بھی پیش قدمی ہوئی وہ وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے خود نظام کو ٹھیک کرنے کی پہل کی ہے۔

وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے بھی بار بار الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ویاپم سے متعلق معاملات میں ٹھوس کارروائی کی ہے۔

سی بی آئی
Getty Images

بہت سے خاندان برباد

یہ صرف صحافی اکشے سنگھ یا طالبہ نمرتا ڈامور کی موت کی بات نہیں۔ مشتبہ حالات میں تقریباً 40 افراد کی اموات کی وجہ سے بڑی تعداد میں خاندان تباہ ہو چکے ہیں۔

اس فراڈ کے ایک ملزم راجیو کہتے ہیں کہ ’اس معاملے میں پھنس جانے سے کئی خاندان تباہ ہو گئے تھے۔ شدید ذہنی تناؤ کی وجہ سے لوگوں نے خودکشیاں کیں، شادیاں ٹوٹ گئیں، کئی کے والدین اس غم میں چل بسے۔‘

ایسا ہی ایک معاملہ گوالیار کا تھا جہاں گجراج میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے والے رامیندر سنگھ نے گھپلے میں نام آنے پر پھانسی لگا کر خودکشی کرلی تھی۔

چند روز بعد نوجوان بیٹے کی موت کے غم میں ماں نے تیزاب پی کر خود کشی کر لی۔

اپنے بیٹے اور بیوی کی موت کے بعد 62 سالہ نارائن سنگھ بھدوریا کا کہنا ہے کہ ’چار دن میں اپنے بیٹے اور بیوی کو کھونے کے بعد میں مرنے کی جلدی میں ہوں، مجھے اب جینے کی کوئی خواہش نہیں۔‘

ویاپم کے جال میں پھنسے نوجوانوں کی حالت

شیکھر نے ایک جملے میں اپنی زندگی کی کہانی سنائی کہ ’ہمیں کہا گیا کہ اپنے سامنے بیٹھے شخص سے جوابات کاپی کریں، اس طرح ہم نے پی ایم ٹی پاس کی، کالج میں داخلہ لیا، پھر ویاپم نام کا ایک گھپلا سامنے آیا۔ ہمیں بے نقاب کیا گیا، ہمارے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا گیا، ہمیں کالج سے نکال دیا گیا، جیل بھیج دیا گیا، سات آٹھ مہینے جیل میں گزارنے پڑے اور اس وقت ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہیں۔‘

راجیو کہتے ہیں کہ ’ہم پھنس گئے ہیں۔ ہمارے 10 سال ضائع ہو چکے ہیں، شاید ہمیں سات سال سزا ہو جائے، اس طرح ہمارے کل 17 سال گزر جائیں گے۔ 17 سال گزرنے کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ ہماری کوئی قیمت رہے گی۔‘

مدھیہ پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پلے بڑھے راجیو کا خواب پی ایم ٹی پاس کرنا تھا لیکن جب وہ پی ایم ٹی میں دو بار فیل ہوئے تو ان کے گھر والوں نے ایک مڈل مین کو پانچ لاکھ روپے دیے۔ اس رقم کے بدلے مڈل مین نے راجیو کے لیے ایک شخص فراہم کیا جس نے ان کی طرف سے امتحان میں کاپی لکھی۔

10 سال کی طویل تحقیقات کے دوران راجیو اور شیکھر کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ راجیو جو کبھی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتے تھے اب کبھی کبھار اپنے والد کی آٹے کی چکی میں مدد کرتے ہیں۔ شیکھر ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے ہیں اور دونوں کی عمریں 30 سال سے تجاوز کر چکی ہیں۔

شیکھر اپنے آبائی شہر میں نہیں رہتے کیونکہ وہ ’لوگوں سے آنکھ ملا نہیں سکتے۔ حالانکہ میرے بوڑھے والدین مجھ سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔‘

راجیو کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم جیسے سبھی لوگ امیر تھے۔ کچھ کے پاس شاید ایک یا دو ایکڑ زمین تھی جسے بیچ کر لوگوں نے دلالوں کو پیسے دیے تھے۔ ان لوگوں کو ادا کرنے کے لیے ہمارے خاندان کو سود پر رقم لینا پڑی تھی۔‘

ہائی کورٹ کے وکیل امیش بوہرا، جنہوں نے راجیو اور شیکھر جیسے 50 سے زیادہ لوگوں کی ضمانت حاصل کی ہے، کہتے ہیں کہ ویاپم گھپلے میں ’اچھے خاندان والے بچ جائیں گے، غریب مر جائیں گے۔‘

عدالتی نظام سے وابستہ ایک اور شخص کا کہنا ہے کہ میڈیکل، انجینئرنگ یا دیگر کورسز میں داخلہ لینے کے لیے رشوت اور فراڈ کا سہارا لینے والوں سے ہمدردی کیوں ظاہر کی جائے؟

’انجن بوگی سسٹم‘ کیسے کام کرتا تھا؟

سرکاری تنظیم ویاپم ریاست میں تکنیکی کالجوں میں داخلے کے لیے امتحان کے انعقاد کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے امتحانات کا بھی انعقاد کرانے کا ذمہ دار ہے۔

پولس کے مطابق اس امتحانی گھپلے میں (جسے بہار کے چارہ گھوٹالہ سے بڑا کہا جاتا ہے) امیدواروں کے بجائے میڈیکل-انجینئرنگ وغیرہ کے داخلہ امتحانات میں دوسروں کو لکھنے کو کہا گیا تھا۔ امتحانی پرچے امتحان کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی لکھے گئے۔

’انجن بوگی سسٹم‘ نامی انتظام میں بیٹھنے کا کچھ اس طرح انتظام کیا گیا تھا کہ آگے پیچھے بیٹھے امتحان دینے والے نقل کر سکیں۔

وہ لوگ جنھوں نے دوسروں کی طرف سے ٹیسٹ دیا یا جن کو جوابات دوسروں سے نقل کرنے کے لیے کہا گیا انھیں ’سولور‘ یعنی حل کرنے والے کہتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر معاملات میں پہلے ہی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم تھے اور ان سب کو دوسرے شہروں سے پیسے دے کر لایا گیا تھا۔

سی بی آئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ سولور یا حل کرنے والے اتر پردیش، بہار، دہلی، راجستھان، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، مہاراشٹر جیسی ریاستوں سے لائے گئے تھے۔ زیادہ تر معاملات میں یہ حل کرنے والے یا تو میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے طلبا تھے یا وہ روشن دماغ لڑکے تھے جو کوچنگ میں پی ایم ٹی کی تیاری کر رہے تھے۔

نوجوان کیسے اس جال میں پھنسے؟

راجیو اور شیکھر ایک دوسرے سے سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں لیکن ان کی زندگی تقریباً ایک جیسی ہے۔ دونوں پی ایم ٹی میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے اور انھیں خاندانی دباؤ کا سامنا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے مڈل مین کے تجویز کردہ راستے کا انتخاب کیا۔

شیکھر کا کہنا ہے کہ ان جیسے لوگ ویاپم گھپلے کے نیٹ ورک کا نشانہ بنتے تھے۔ ’یہ ان کی مارکیٹنگ کی حکمت عملی تھی جس کے تحت ہمیں ایسے لوگوں سے رابطہ ہوا۔‘

راجیو کے بھائی کے ایک رشتہ دار نے قصبہ میں ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ فکر کرنے سے بہتر ہے کہ پانچ لاکھ روپے خرچ کرو اور میڈیکل کالج میں سلیکشن کنفرم کراؤ۔ 20-25 ہزار روپے ایڈوانس دینے کے بعد ان کے کاغذات لے لیے گئے اور انھیں بتایا گیا کہ ان کی جگہ کوئی اور شخص پی ایم ٹی میں بیٹھے گا اور ان کا نام داخلہ فہرست میں شامل کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ بھی لے لیا۔

راجیو کہتے ہیں کہ ’جب ہم داخلہ لینے گئے تو پوری کمیٹی وہاں بیٹھی تھی۔ انھوں نے ہمارے کاغذات دیکھے اور پھر بھی ہمیں داخلہ دیا حالانکہ ہمارے ایڈمٹ کارڈ پر تصویر اس شخص کی تھی جس نے میری طرف سے میڈیکل داخلہ کا امتحان دیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایجنٹس، امتحان ہال میں ہونے والی گڑبڑییاں، داخلے کی انکوائری کمیٹی میں بیٹھے لوگ، یہ سارا نیٹ ورک 10-12 لوگوں کا نہیں ہو سکتا۔ ایک پورا سسٹم کام کر رہا تھا لیکن آج دس سال بعد ہمیں سزا دی جا رہی ہے۔ یہ تو ہو رہا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ہم اس جال میں کیسے پھنس گئے۔ ہمیں دکھا کر اصل مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ایس ٹی ایف اور سی بی آئی نے اپنے کیسوں میں سینکڑوں امتحان دینے والوں اور والدین کو بھی شامل کیا ہے، جن سے سول گروپس، وسل بلوؤرز، سیاست دانوں اور طلبا نے خود پوچھ گچھ کی۔

وزیر اعلی
Getty Images
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی اور وزیر تعلیم

کیا اس سکینڈل کے ذمہ دار لوگ پکڑے گئے؟

بہت سے دوسرے لوگ بھی ایسے سوالات اٹھاتے ہیں۔ خاص طور پر اس لیے کہ 25 سال پہلے سے ہی پی ایم ٹی گھپلے کے لیے ریاست کے مختلف تھانوں میں کیس درج کیے گئے ہیں۔ کئی رپورٹس میں ان کی تعداد 55 تک بتائی گئی ہے۔

بی بی سی سے بات چیت میں کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے الزام لگایا کہ تحقیقات کو غلط سمت میں لے جایا جا رہا ہے۔

انھوں نے ہریانہ کی مثال دی جہاں ٹیچر کی تقرری کے گھپلے میں جن لوگوں نے تقرری کے لیے پیسے دیے تھے انھیں ملزم نہیں بنایا گیا بلکہ گواہ بنایا گیا اور اس طرح تفتیش کار اوپر بیٹھے لوگوں تک پہنچے۔

’لیکن جن لوگوں نے یہاں پیسہ دیا ہے وہ زیادہ تر جیل میں ہیں۔ پیسے لینے والے کچھ لوگ جیل بھی گئے لیکن وہ سب رہا ہو رہے ہیں۔ میرا سی بی آئی سے سوال ہے کہ جو لوگ بتا رہے ہیں کہ ہم اس جال میں کیسے پھنس گئے انھیں گواہ کیوں نہیں بنایا گیا؟‘

ڈاکٹر آنند رائے جو ویاپم گھپلے کو بے نقاب کرنے میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ ’چھوٹے لوگوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ایک پیرامڈ کی طرح ہے، جس میں امتحان دینے والے سب سے نیچے ہیں، والدین ہیں، یہ لوگ جیلوں میں بند ہیں۔ اب اگر آپ 10-15 سال تک تحقیقات جاری رکھیں گے تو کیا ہوگا؟‘

ڈاکٹر آنند رائے کہتے ہیں کہ طویل لڑائی بعض اوقات مایوس کن ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بڑی عدالتوں میں کئی بڑے وکیل مفت میں مقدمہ لڑتے ہیں اور دوسری طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں لیکن چھوٹی عدالتوں میں یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔

چند ہفتے قبل مدھیہ پردیش میں پٹواریوں کی بھرتی میں گھپلے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ریاست میں بھرتی اور شاید داخلہ امتحان میں گھپلہ اب بھی بے روک ٹوک جاری ہے۔

اپوزیشن پارٹی کانگریس کا کہنا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہوگا اور ظاہر ہے ویاپم گھپلہ اس سے جڑا ہوا ہے۔

سپریم کورٹ میں بھی وی پی اے پی ایم فراڈ کی تحقیقات سے متعلق کئی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US