صدر پوتن نے بی بی سی کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’ہم فوری طور پر دشمنی ختم کرنے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ روس کی درمیانی اور طویل المدتی سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور ہم آپ کے ساتھ تعاون کے لیے بھی تیار ہیں۔‘

صحافیوں کا دنیا کے رہنماؤں سے سوالات کرنا یوں تو معمول کی بات ہے لیکن جب سامنے روسی صدر ولادیمیر پوتن ہوں تو ان سے سوال کرنا کیسا ہوتا ہے؟
وہ صدر جس نے یوکرین پر حملے کا حکم دیا تھا، وہ رہنما جس کے ملک پر رواں ہفتے برطانیہ کی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی 6 کے سربراہ نے ’افراتفری پھیلانے‘ کا الزام لگایا۔
اور تصور کریں کہ یہ سوال ٹی وی کی براہ راست نشریات میں پوچھا جا رہا ہے جس کو لاکھوں روسی شہری بھیدیکھ رہے ہیں۔
تو پھر یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ آپ کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
تو اس ماحول میں صدر پوتن سے میرا سوال تھا ’میرا سوال روس کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ آپ اپنے ملک اور عوام کے لیے کس قسم کے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟‘
’کیا مستقبل بھی حال جیسا ہوگا، جہاں عوامی سطح پر سرکاری مؤقف سے اختلاف کو قانون کے تحت سزا دی جاتی ہے؟ کیا اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دشمنوں کی تلاش میں مزید تیزی آئے گی، کیا موبائل انٹرنیٹ کی بندش مزید عام ہو جائے گی؟ کیا نئی ’خصوصی فوجی کارروائیاں‘ جاری رہیں گی؟‘

میری بات کے دوران صدر ولادیمیر پوتن نوٹس لیتے رہے اور پھر جواب دیا۔
انھوں نے روس کے سخت گیر ’غیر ملکی ایجنٹ‘ قانون کا دفاع کیا اور حکام پر تنقید کرنے والے سینکڑوں روسیوں کو ’غیر ملکی ایجنٹ‘ قرار دیا۔
پوتن نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ہم نے ایجاد نہیں کیا۔ پوتن نے دعویٰ کیا کہ غیر ملکی ایجنٹوں کے متعلق ایسے قوانین 1930 کی دہائی میں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک میں بنائے گئے تھے۔ ’اور امریکی قانون سمیت یہ تمام قوانین، کہیں زیادہ سخت ہیں۔۔۔‘
لیکن درحقیقت روسی قانون کہیں زیادہ سخت ہے۔ یہ ’غیر ملکی ایجنٹس‘ کے تدریس، سول سروس، انتخابات اور عوامی تقریبات سمیت روز مرہ زندگی کے کئی پہلوؤں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ اس سے مالی اور جائیداد سے متعلق کئی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔ ایک معمولی سے جرمانے کے نتیجے میں بھی آپ پر فوجداری مقدمہ ہو سکتا ہے۔
تاہم میں صدر پوتن کو یہ بات نہیں بتا سکتا۔ میرا سوال ختم ہوتے ہی مائیکروفون مجھ سے لے لیا گیا اور اچانک منتظم نے اس مرحلے پر موضوع بدلنے کے لیے مداخلت کر دی۔
اینکر پاویل زاروبن نے کہا کہ یہاں ایک اور سوال ہے کہ بی بی سی کا کیا بنے گا؟ اسے امریکی صدر کی طرف سے اربوں ڈالر کے مقدمے کا سامنا ہے۔‘
اور ساتھ ہی صدر پوتن نے بھی گویا ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے صدر ٹرمپ درست ہیں۔‘
کریملن اور وائٹ ہاؤس بی بی سی کے معاملے پر ایک ہی صفحے پر دکھائی دیے۔
پوتن نے میرے سوال کی طرف واپس آتے ہوئے کہا کہ ’کیا نئی خصوصی فوجی کارروائیاں ہوں گی؟ بالکل نہیں ہوں گی اگر آپ ہمیں عزت دیں اور ہمارے مفادات کا احترام کریں جیسا کہ ہم بھی ہمیشہ آپ کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں اور یہ تب تک ہوتا ہے جب تک کہ آپ ہمیں دھوکہ نہ دیں، جیسے کہ آپ نے نیٹو کی مشرق میں پھیلاؤ کے حوالے سے کیا تھا۔
یاد رہے کے روس یورپ کے مشرق میں واقع ہے۔
ولادیمیر پوتن کی مغرب کے خلاف گہری اور دیرینہ رنجش سب پر واضح ہے۔
انھوں نے اپنا برسوں پرانا موقف دہرایا کہ مغربی رہنماؤں نے روس کی بے عزتی کی، اسے دھوکہ دیا اور جھوٹ بولا۔ انھوں نے کہا کہ مغربی رہنما اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں جب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ماسکو یورپ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کریملن کے سربراہ نے کہا کہ ’یہ کیسی فضول بات ہے؟‘
لیکن بہت سے یورپی رہنما ماسکو پر اعتماد نہیں کرتے۔
یوکرین پر روس کے مکمل پیمانے پر حملے سے پہلے روسی حکام نے اس بات کی تردید کی تھی کہ وہ کسی بڑے حملے کے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
حالیہ عرصے میں روس پر لڑاکا طیاروں اور ڈرونز کے ذریعے یورپی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزامات بھی لگے ہیں اس کے علاوہ سائبر حملوں اور تخریبی کارروائیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
لیکن جب وہ میرے سوال کا جواب دے چکے تو کیا یہ روسی صدر کی جانب سے یورپ کے لیے امن کا پیغام تھی؟
’ہم فوری طور پر دشمنی ختم کرنے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ روس کی درمیانی اور طویل المدتی سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور ہم آپ کے ساتھ تعاون کے لیے بھی تیار ہیں۔‘
تاہم اگر ماسکو اپنی طویل المدتی سلامتی کو یوکرین سے متعلق اپنے سخت ترین مطالبات سے جوڑتا رہا تو یورپی رہنما بدستور شکوک و شبہات میں مبتلا رہیں گے۔