5 بچے ریسکیو، دیگر افراد کے لیے آپریشن جاری ہے: آئی ایس پی آر

image
خیبر پختونخواہ کے ضلع بٹگرام تحصیل الائی میں چیئر لفٹ میں پھنسے ہوئے آٹھ افراد میں سے پانچ کو ریکسیو کر لیا گیا ہے۔

چیئر لفٹ کی رسی ٹوٹ جانے کے باعث سکول کے بچے اور اساتذہ  دریا کے اوپر 900 فٹ کی بلندی پر لفٹ میں پھنس گئے تھے۔

دن بھر کی ریسکیو آپریشن کے بعد رت گئے تک پانچ بچوں کو ریکیسو کر لیا گیا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاکستان  آرمی نے ریسکیو آپریشن میں تین اور بچوں  کو ریسکیو کر لیا۔

’اب تک  کل  پانچ بچے ریسکیو کیے جا چکے ہیں۔ جی او سی ایس ایس جی خود اِس ریسکیو آپریشن کی قیادت کر رہے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ باقی افراد کی ریسکیو کے لیے  پاک فوج کا آپریشن جاری  ہے۔

قبل ازیں جھنگڑی کے مقام پر موجود سیف الاسلام نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ  ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک بچے کو ریسکیو کیا گیا۔  ’پہلے ہیلی کاپٹر سے چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کو حفاظتی بیگ فراہم کیا گیا جس میں لائف جیکٹ اور دیگر ضروری سامان موجود تھا۔‘  

’بیگ دینے کے بعد بچے نے حفاظتی جیکٹ پہنا تو ہیلی کاپٹر سے نوجوانوں نے رسی پھینکی۔ بچے نے مضبوطی سے رسی پکڑی اور مضبوط گانٹھ دے کر خود کو باندھ لیا۔‘

سیف الاسلام کے مطابق اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے رسی کھینچی گئی۔ ’جب چیئرلفٹ سے بچہ نکل آیا تو کمانڈو نے بچے کو اپنے ساتھ پکڑ کر بحفاظت ہیلی کاپٹر پر پہنچا دیا۔‘

مقامی افراد کے مطابق ایک بچے کو ریسکیو کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر واپس نہیں آئے۔ ’ اندھیرا چھا گیا ہے اس لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کو روک دیا گیا ہے۔‘

وقع پر موجود مقامی لوگوں کے مطابق مقامی ریسکیو دستہ چیئر لفٹ تک پہنچ چکا ہے۔ چیئر لفٹ تک رسائی کے لیے تار بچھا دیا گیا ہے تاہم اب تک کسی بچے کو ریسکیو نہیں کیا گیا ہے۔

مقامی لوگوِں نے بتایا ہے کہ پہلے ریسکیو منی چیئر لفٹ کی مضبوطی کو دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق چیئر لفٹ میں پھنسے سکول ٹیچر گلفراز اور مقامی ریسکیو دستے کے مابین رابطہ ہو گیا ہے۔

’جب ریسکیو لفٹ کے لیے بچھائی گئی تار کی مضبوطی کو جانچا جائے گا تو فرداً فرداً بچوں کو دوسری جانب شفٹ کیا جائے گا۔

 ریسکیو چیئر لفٹ زیادہ وزن برداشت نہیں کر سکتا لہٰذا ممکنہ طور پر ایک یا دو افراد کو وقفے وقفے سے ریسکیو کیا جائے گا۔

سیف الاسلام کے مطابق دوسری طرف سے مقامی ریسکیو ٹیم کے افراد بھی ریسکیو آپریشن کر رہے ہیں ’مقامی ریسکیو ٹیم کے کارندوں نے آدھا راستہ طے کر لیا ہے وہ بھی ان بچوں تک جلد پہنچ جائیں گے۔‘

قبل ازیں کیبل کار میں پھنسے ہوئے بالغ افراد میں سے ایک گل فراز کا اے ایف پی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’شام ہو رہی ہے۔ ہمین بتائیں کہ ہیلی کاپٹر واپس کیوں جا رہے ہیں۔‘

’خدا کے لیے ہمیں بچائیں۔‘

سیف الاسلام نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ یہ تمام افراد جھنگڑی سے بذریعہ چیئر لفٹ بٹنگی ہائی سکول جا رہے تھے کہ اچانک یہ واقعہ رونما ہوا۔

’کُل پانچ ہیلی کاپٹرز یہاں پہنچے تھے۔ چوتھا ہیلی کاپٹر جب پہنچا تو چیئر لفٹ کے ارد گرد پانچ چکر لگانے کے بعد لینڈ کر گیا۔

ان کے بقول چوتھا ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے کے بعد دوبارہ چیئر لفٹ کے قریب پہنچا لیکن کوئی نتیجہ نہیں ملا جس کے بعد دوبارہ لینڈ کر گیا۔

عمر رحمان بھی اسی مقام پر بچوِں کے والدین کے ساتھ موجود ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’یہاں صرف ہیلی کاپٹرز ریسکیو آپریشن نہیں کر رہے بلکہ مقامی ریسکیو ٹیمیں بھی پہنچ چکی ہیں اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں بھی موجود ہیں۔‘

ان کے بقول بچوں کے والدین نے مقامی ریسکیو ٹیموں کو تاحال ریسکیو آپریشن کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی ہے۔

’والدین کا اعتماد ہے کہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے یہ ریسکیو آپریشن کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن پھر بھی مقامی ریسکیو ٹیمیں تیار ہیں جو چیئر لفٹ کے کیبل کی مدد سے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تاہم بچوں کے والدین اجازت نہیں دے رہے۔‘

سیف الاسلام نے اردو نیوز کو دوسری جانب موجود لوگوں کے احوال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ’دوسری جانب بھی لوگ کوششیں کر رہے ہیں۔ جتنا ہمیں دکھائی دے رہا ہے تو وہ لوگ شاید دوسری کیبل لگا کر بچوں تک پہنچنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

عمر رحمان نے بتایا کہ نیچے دریا ہے اس لیے نیچے سے حفاظتی اقدامات کرنا مشکل ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اندھیرا بڑھ رہا ہے اور رات کے وقت ہوا کی رفتار بھی زیادہ ہوتی ہے اور ریسکیو آپریشن تاحال بے نتیجہ ہے۔

’رات کو اندھیرا ہو جائے گا۔ ریسکیو ٹیموں نے مزید دو گھنٹے مانگے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ دو گھنٹوں میں اپریشن مکمل ہو جائے گا۔‘

ان کے مطابق مقامی لوگ بھی اپنی تئیں کوششیں کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اجازت نہیں مل رہی ہے۔

’مقامی لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں خطرہ ہے اس لیے انہیں اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘

عمر رحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ نیچے دریا بہہ رہا ہے اس لیے نیچے سے حفاظتی اقدامات کرنا مشکل ہے۔

عمر رحمان کا کہنا  ہے کہ جیسے ہی ہیلی کاپٹر چیئر لفٹ کے قریب جاتا ہے تو رسیاں ہلنے لگتی ہیں اور چیئر لفٹ بھی معلق ہے تو یہ خطرے سے خالی نہیں۔

’ہیلی کاپٹر قریب جاتے ہی بچے ڈر جاتے ہیں‘

’ہیلی کاپٹر سے رسی پھینک کر بھی کوشش کی گئی لیکن ہیلی کاپٹر کا دباؤ اتنا ہے کہ چیئر لفٹ گرنے کا خدشہ ہے۔‘

اس وقت دریا کے دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگ جمع ہیں اور دونوں جانب موجود لوگ ریسکیو آپریشن کامیاب ہونے کی دعائیں کر رہے ہیں۔

کیبل کار، پہاڑی علاقوں میں آمد و رفت کا ذریعہ

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا اور گلگلت بلتستان میں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے کیبل کار کا استعمال عام ہے۔ کیبل کار یا چیئرلفٹ گلگت اور خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں جہاں روڈ تعمیر نہیں کیے جاسکتے آمدورفت  کا ذریعہ ہے۔

2017 میں اسلام آباد کے قریب ایک گاؤں میں چیئر لفٹ ٹوٹ کر گرنے سے 10 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US