غزہ جنگ کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے باوجود اطلاعات ہیں کہ واشنگٹن نے اسرائیل کو اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار دینے کی منظوری دی ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ وہ رفح پر حملہ کرے گا۔ اس نے اس عالمی تشویش کو مسترد کیا جس میں بے گھر افراد کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھاغزہ جنگ کے دوران بڑھتی کشیدگی کے باوجود اطلاعات ہیں کہ واشنگٹن نے اسرائیل کو اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار دینے کی منظوری دی ہے۔
دی واشنگٹن پوسٹ اور خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان ہتھیاروں میں 25 ایف 35 اے جنگی طیارے، 1800 کے قریب 900 کلوگرام وزنی ایم کے 84 بم اور 500 کے قریب 226 کلو گرام وزنی ایم کے 82 بم شامل ہیں۔
ماضی میں ان بڑے بموں کو غزہ میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے جوڑا جاتا رہا ہے۔
امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالرز کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔
لیکن یہ تازہ ترین فوجی امداد ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بائیڈن انتظامیہ غزہ میں شہریوں کی بڑھتی اموات اور اس علاقے تک سماجی کارکنان کی رسائی کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اقوام متحدہ نے غزہ میں قحط کے خطرے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکہ مصر کے سرحدی علاقے سے منسلک رفح میں بڑے پیمانے پر ممکنہ اسرائیلی زمینی کارروائی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اس وقت رفح میں تقریباً 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر فلسطینی موجود ہیں۔
رام اللہ میں فلسطینی وزارتِ خارجہ نے امریکی پالیسیوں میں اس عدم تسلسل پر تنقید کی ہے۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری ایک بیان میں فلسطینی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے شہریوں کا ’قتل عام بند کرنے کا مطالبہ اور ساتھ ہی انھیں ہتھیاروں کی فراہمی امریکہ کے اخلاقی تضاد کی عکاسی کرتا ہے۔‘
اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر صدر بائیڈن کو اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض سینیئر ارکان کی طرف سے بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ امریکی امداد اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے طریقہ کار میں تبدیلیوں سے مشروط ہونی چاہیے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کانگریس کو باضابطہ طور پر مطلع کیے جانے سے قبل امریکی ہتھیاروں کی منتقلی کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کو بھیجے جانے والے اضافی جنگی طیارے ابتدائی طور پر 2008 میں کانگریس کے ایک بڑے پیکج کے حصے کے طور پر منظور کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس امداد کی درخواست گذشتہ سال حماس کے 7 اکتوبر کے حملے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی غزہ جنگ سے پہلے کی گئی تھی۔
اسلحے کی منتقلی پر صدر جو بائیڈن کو اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض سینیئر ارکان کی طرف سے بھی کڑی تنقید کا سامنا ہےخیال ہے کہ گذشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیر دفاع اپنے ساتھ امریکی ہتھیاروں کی ایک لمبی فہرست لے کر واشنگٹن پہنچے تھے۔
غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کا امریکی ہتھیاروں پر بہت زیادہ انحصار رہا ہے۔
اب تک غزہ پر دسیوں ہزار بم گرائے جا چکے ہیں۔ فوجی ماہرین اسرائیلی فضائی مہم کو حالیہ تاریخ کی سب سے زیادہ شدید اور تباہ کن مہم قرار دیتے ہیں۔
پچھلے سال کے آخر میں کئی امریکی خبر رساں اداروں نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے اسرائیلی فضائی بمباری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بم کریٹرز کا تجزیہ کیا۔ ان کے مطابق، غزہ جنگ کے دوران اسرائیل تواتر سے 2000 پاؤنڈ وزنی بموں کا بڑے پیمانے پر استعمال کر رہا ہے۔
اخبار دی نیویارک ٹائمز نے دھماکہ خیز مواد کے ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مغربی افواج نے کبھی بڑے بموں کا استعمال اتنے گنجان آباد علاقوں میں نہیں کیا ہے۔
امریکی اعلیٰ حکام سے ملاقات کے دوران، اسرائیلی وزیرِ دفاع نے لبنان میں مسلح گروپ حزب اللہ کے ساتھ لڑائی میں ممکنہ اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی برتری کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اپنے دورے کے دوران انھوں نے امریکہ کے ساتھ موجود تناؤ کو کم کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
پیر کے روز امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والے ایک اہم ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جس کے نتیجے میں کونسل نے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی ایک قرارداد منظور کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس قرارداد کی منظوری پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
تاہم، وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کی جانب سے ان دعوؤں کی تردید سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے غزہ جنگ پر اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے یا اسرائیل کو دی جانے والی امداد کو مشروط کرنے جا رہا ہے۔
کربی کا کہنا تھا کہ امریکہ اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب بھی اسرائیل کو جنگی آلات اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ حماس سے اپنا دفاع کر سکے۔
اسلحے کی نئی کھیپ کی منتقلی کی مبینہ منظوری کے بعد سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
اس بات کی توقع کی جا رہی کہ رفح میں حماس کے خلاف آپریشن کے ممکنہ متبادل منصوبوں پر بات چیت کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اسرائیلی وفد واشنگٹن کا دورہ کرے گا۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے ووٹ کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نے یہ دورہ منسوخ کر دیا تھا۔
جبکہ دوسری جانب، اسرائیل نے حماس کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی کے معاہدے اور اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے نئے مذاکرات کے لیے سینیئر انٹیلی جنس اہلکاروں کو دوبارہ مصر اور قطر بھیجنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔