جنوبی شام میں السویدا شہر کے باہر موجود بدو جنگجو دروز برادری کے ساتھ جنگ بندی کو قائم رکھے ہوئے ہیں تاہم وہ جھڑپوں کی بحالی کے امکان کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کرتے۔

جنوبی شام میں السویدا شہر کے باہر موجود بدو جنگجو دروز برادری کے ساتھ جنگ بندی کو قائم رکھے ہوئے ہیں تاہم وہ جھڑپوں کی بحالی کے امکان کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کرتے۔
یہ بدو جنگجو شہر سے پسپا ہو کر مضافاتی دیہات میں آ چکے ہیں۔ اس سے قبل تقریب ایک ہفتے تک دروز برادری، بدو جنگجو اور شامی حکومتی فوج کے درمیان جان لیوا تصادم تقریبا ایک ہفتے تک جاری رہا جس کے دوران اسرائیل کی جانب سے دروز کے حق میں فضائی بمباری بھی کی گئی۔
اتوار کو ایک برطانوی مانیٹرنگ گروپ نے کہا کہ خطے میں ’محتاط سکون‘ برقرار ہے تاہم بعد میں ان کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ قبائلی جنگجووں نے دیہات پر حملہ کیا ہے۔
السویدا شہر سے دور ایک دیہات کے کھیتوں سے دھواں اٹھتا ہوا دیکھا جا سکتا تھا جو ایک ہفتہ پہلے تک دروز کے کنٹرول میں تھا لیکن پھر یہاں بدو جنگجو پہنچے اور اب یہ شامی حکومت کے قبضے میں ہے۔
ایک چوکی پر ہم نے درجنوں حکومتی سکیورٹی اہلکار دیکھے جو اسلحہ سے لیس تھے اور السویدا میں بدو جنگجوؤں کو دوبارہ داخل ہونے سے روکے ہوئے ہیں۔ اسی سڑک پر سینکڑوں کی تعداد میں بدو جنگجو بھی موجود تھے جن میں سے اکثر ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ السویدا میں موجود ان زخمی بدو افراد کو رہا کیا جائے جنھیں وہ ’مغوی‘ قرار دیتے ہیں۔ بصورت دیگر ان کا کہنا ہے کہ وہ زبردستی حکومتی چوکی سے نکل کر شہر میں داخل ہو جائیں گے۔
اتوار کو ایک برطانوی مانیٹرنگ گروپ نے کہا کہ خطے میں ’محتاط سکون‘ برقرار ہےایک قبائلی رہنما نے بی بی سی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے وہ کیا جو حکومت نے ہمیں کہا اور ہم معاہدے اور حکومت کے وعدے کے پابند ہیں، یہاں سے السویدا 35 کلومیٹر دور ہے۔‘
’ہمارے یرغمالی اور زخمی وہاں ہیں، وہ کسی کو بھی ہمارے حوالے کرنے سے انکار کر رہے ہیں، اگر انھوں نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی تو ہم دوبارہ جائیں گے، چاہے السویدا ہمارا قبرستان ہی بن جائے۔‘
دروز اور بدو قبائل کے درمیان کشیدگی ایک ہفتہ قبل اس وقت خونیں تنازع میں بدل گئی تھی جب شام کے دارالحکومت دمشق کو جانے والے راستے سے ایک دروز تاجر اغوا ہو گیا تھا۔
شام کی عبوری حکومت کے سربراہ احمد الشرع کی انتظامیہ نے السویدا کے باہر سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے تھے۔ دروز شہریوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھوں نے مسلح افراد کی جانب سے بربریت دیکھی۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے دروز کے حق میں حملے کیے۔
بعد میں شامی حکومتی اہلکار السویدا سے باہر نکلے اور پھر بدو جنگجووں اور دروز کے درمیان لڑائی ہوئی۔ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر گزشتہ سات دن کی جھڑپوں کے دوران مظالم کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ حکومت سے منسلک اہلکاروں پر بھی الزامات لگ چکے ہیں۔
ہفتے کے دن شام کی حکومت نے جنگ بندی کا اعلان کیا اور لڑائی ختم کروانے کے لیے حکومتی اہلکار السویدا بھیجے گئے۔
ہفتے کے دن شام کی حکومت نے جنگ بندی کا اعلان کیا اور لڑائی ختم کروانے کے لیے حکومتی اہلکار السویدا بھیجے گئےاس وقت دروز ایک بار پھر شہر کا کنٹرول رکھتے ہیں لیکن اب تک برطانیہ میں موجود ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق گیارہ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 427 دروز جنگجو اور تقریبا 300 عام شہری شامل ہیں جن کو تنظیم کے مطابق قتل کیا گیا۔
تنظیم کے مطابق 354 حکومتی اہلکار اور 21 بدو بھی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے تین عام شہری تھے جنھیں دروز جنگجووں نے قتل کیا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی حملوں میں 15 سرکاری اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق ایک لاکھ 28 ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں جبکہ السویدا میں طبی ساز و سامان کی کمی ہے۔ اسرائیلی سرکاری ٹی وی کے مطابق دروز کو طبی امداد بھیجی گئی ہے۔
السویدا کے جنوب میں میاربہ کے مقام پر بدو افراد ایک پرانے سکول میں اکھٹے ہیں۔ اس گاؤں میں خانہ جنگی کے اثرات اب تک واضح ہیں جہاں عمارات کھنڈر ہو چکی ہیں اور ہر جگہ گولیوں کے نشانات نظر آتے ہیں۔
یہاں واقع ایک امدادی مرکز پر عمر رسیدہ بدو خواتین ایک ٹرک سے پانی حاصل کر رہی تھیں۔ زیادہ تر خواتین اور بچے ہی موجود تھے۔

جب ہم نے ایک خاتون سے سوال کیا کہ کیا دروز اور بدو ایک ساتھ رہ سکتے ہیں تو السویدا سے بے دخل ہونے والی ان خاتون کا کہنا تھا کہ یہ دمشق کی حکومت پر منحصر ہے۔
’اگر حکومت اس علاقے کا کنٹرول اپنے پاس رکھے اور امن اور سکیورٹی فراہم کرے تو بلکل ساتھ رہ سکتے ہیں۔‘
تاہم ان کے مطابق حکومت کی غیر موجودگی میں بدو دروز پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ ’وہ غدار ہیں، امن اور سکیورٹی کے بغیر ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘
جیک برگز کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ