گولیاں مار کر قتل کیے گئے کچھ افراد وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق مذہبی شدت پسند گروہ الشباب سے ہوتا ہے اور انھیں فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں سُنائی جا چکی ہوتی ہیں۔
گذشتہ برس موغادیشو کے اس ساحل پر 25 لوگوں کو موت کی سزا دی گئی تھیمشرقی افریقہ کے ملک صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کے ساحلِ سمندر کی سفید ریت پر چھ بانس گڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
قریب ہی بحیرہِ ہند کے نیلے پانیوں میں لہریں اُٹھتی ہوئی نظر آتی ہیں اور اکثر اسی مقام پر کچھ دل دہلا دینے والے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔
انتباہ: اس مضمون میں ایسی تفصیلات ہیں جو کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
اکثر قانونی نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اس مقام پر ایسے افراد کو لے کر آتے ہیں، ان کے ہاتھ پلاسٹک کی رسیوں میں جکڑتے ہیں، ان کے منہ پر سیاہ کپڑا ڈالتے ہیں اور انھیں گولیاں مار کر قتل کردیتے ہیں۔
اس دوران خصوصی تربیت یافتہ فائرنگ سکواڈ کے اراکین کے چہرے بھی ماسک کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کے سر تو ڈھلک جاتے ہیں لیکن ان کے جسم وہیں پول سے بندھے رہتے ہیں۔
گولیاں مار کر قتل کیے گئے کچھ افراد وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق مذہبی شدت پسند گروہ الشباب سے ہوتا ہے اور انھیں فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں سُنائی جا چکی ہوتی ہیں۔
مذہبی شدت پسند گروہ الشباب تقریباً 20 برسوں سے صومالیہ میں دہشت کی علامت بنا ہوا ہے اور ملک کے بڑے حصوں پر اس کا قبضہ ہے۔
ساحلِ سمندر پر موت کے گھاٹ اُتارے گئے باقی افراد وہ فوجی ہوتے ہیں جنھیں عام لوگوں یا ساتھی فوجیوں کو قتل کرنے پر سزائیں سُنائی جاتی ہیں یا ایسے عام مجرم ہوتے ہیں جنھیں سنگین جرائم کی وجہ سے سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
گذشتہ برس موغادیشو کے اس ساحل پر 25 لوگوں کو سزائے موت دی گئی تھی۔
حال ہی میں سید علی معلم نامی ایک شخص کو اپنی اہلیہ کو گھر میں بند کرکے اسے آگ لگا دینے کے جرم میں موت کی سزا سُنائی گئی۔
موت کی سزا دینے کے لیے استعمال ہونے والے ساحل کے پیچھے ضلع حمر ججب میں ایک چھوٹی سی آبادی ہے جہاں جھونپڑیوں میں تقریباً 50 خاندان آباد ہیں۔ اسی مقام پر ماضی میں کبھی ایک پولیس اکیڈمی بھی ہوا کرتی تھی۔
اس آبادی میں رہنے والی فرتون محمد اسماعیل کہتی ہیں کہ ’میرے پانچوں چھوٹے بچے سکول سے آتے ہی ساحل کی طرف دوڑ لگاتے ہیں اور وہاں فُٹ بال کھیلتے ہیں۔‘
فرتون کہتی ہیں کہ ’سزائے موت کے لیے نصب کیے گئے پولز کو وہ بطور گول پوسٹ استعمال کرتے ہیں۔‘
’میں اکثر اپنے بچوں کی صحت کو لے کر فکرمند رہتی ہوں کیونکہ وہ ایک ایسی جگہ کھیلتے ہیں جہاں خون بہتا ہے اور لوگوں کو گولیاں ماری جاتی ہیں۔ سزائے موت پر عمل ہونے کے بعد اس جگہ کی صفائی بھی نہیں کی جاتی۔‘
اسی ساحل کے اطراف میں ان لوگوں کی قبریں بھی موجود ہیں جنھیں اس مقام پر موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔
فرتون کے مطابق ان کے بچوں کو اب تشدد دیکھنے کی عادت پڑ چکی ہے کیونکہ وہ موغادیشو میں پیدا ہوئے ہیں، ایک ایسا شہر جو پچھلے 33 برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔
پھر بھی متعدد والدین سمجھتے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کے خون سے لت پت ساحل پر بچوں کا کھیلنا ان کی ذہنی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔
تاہم ان کے لیے اپنے بچوں کو کھیلنے جانے سے روکنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر والدین اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دن بھر مزدوری کرتے ہیں۔
اس ساحل پر موت کی سزاؤں پر عملدرآمد ہمیشہ صبح چھ اور سات بجے کے درمیان کیا جاتا ہے اور سزاؤں پر عملدرآمد دیکھنے کے لیے صرف صحافیوں کو ہی مدعو کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر مقامی افراد، بچے اور کوئی راہگیر بھی ان مناظر کو دیکھنا چاہے تو بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھ سکتا ہے۔
اس ساحل کو موت کے گھاٹ کے طور پر 1975 میں چُنا گیا تھا جس وقت محمد سیاد بری ملک کے صدر تھے۔
بری کی فوجی حکومت کے دور میں ان مذہبی رہنماؤں کو ان پولز پر موت کی سزا دی جاتی تھی جو وراثت میں لڑکے اور لڑکیوں کے یکساں حصے کے مخالف تھے۔
آج محمد سیاد بری تو زندہ نہیں لیکن اس ساحل پر موت کی سزائیں اب بھی دی جاتی ہیں۔
اس علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انھیں اکثر خوف رہتا ہے کہ کہیں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کے دوران کوئی گولی ان کے بچوں کو نہ لگ جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے پولیس اور فوجی اہلکاروں سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں کیونکہ انھوں نے ہمیشہ ان اہلکاروں کو لوگوں کو مارتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔
اس ساحل کو موت کے گھاٹ کے طور پر 1975 میں چُنا گیا تھافاطمہ عبداللہ قاسم بھی موغادیشو کے ساحل سے چند میٹر دور ہی رہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے اکثر رات کو سونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے اور میں پریشان بھی رہتی ہوں۔‘
’کبھی میں صبح گولیوں کی آواز سُن رہی ہوتی ہوں اور مجھے پتا ہوتا ہے کہ کوئی موت کے کھاٹ اتر گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو گھر میں ہی رکھتی ہیں اور اب وہ اُداس اور غیرمتحرک ہوگئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’مجھے باہر جانے اور ریت میں جذب خون دیکھنے سے نفرت ہوگئی ہے۔‘
لیکن صومالیہ میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو سزائے موت کی حمایت کرتے ہیں خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کہ شدت پسند گروہ الشباب کا حصہ ہیں۔
لیکن فرتون ان لوگوں میں سے نہیں، حالانکہ ان کا ایک 17 سالہ بیٹا بھی اکتوبر 2022 میں کار بم حملوں میں مارا گیا تھا۔ ان حملوں میں 120 افراد ہلاک اور 300 سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے۔
ان حملوں کا الزام بھی الشباب پر عائد کیا گیا تھا۔
’جن لوگوں کو یہاں سزائیں دی جاتی ہیں میں انھیں نہیں جانتی لیکن میں اس سارے عمل کو غیر انسانی سمجھتی ہوں۔‘
اس ساحل پر صرف بچے ہی نہیں کھیلتے بلکہ ہر جمعے کو موغادیشو کے مختلف حصوں سے نوجوان بھی یہاں سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔
آج محمد سیاد بری تو زندہ نہیں لیکن اس ساحل پر موت کی سزائیں اب بھی دی جاتی ہیںان میں 16 سالہ عبدالرحمان آدم بھی شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں اور میرا بھائی ہر جمعے یہاں فُٹ بال کھیلنے اور تیراکی کرنے آتے ہیں۔‘
’ہماری بہن بھی یہاں اپنے اچھے کپڑے پہن کر آتی ہے تاکہ وہاپنی خوبصورت تصاویر بنوا سکے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر سکے۔‘
ان تمام لوگوں کو اس ساحلِ سمندر پر ہونے والی موت کی سزاؤں کا علم ہے لیکن وہ اس کی پرواہ کیے بغیر ہر ہفتے یہاں چلے آتے ہیں۔ ان کے لیے اس مقام کی خوبصورتی سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں۔
عبدالرحمان کہتے ہیں کہ ’ہمارے ہم جماعت جب ہماری تصاویر دیکھتے ہیں تو وہ جلن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انھیں یہ نہیں پتا کہ ہم ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں جہاں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔‘