ممبئی دھماکوں کے 19 سال بعد اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے 10 سال بعد بمبئی ہائی کورٹ نے تمام 12 ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے اہم سوالات کے جوابات نہیں ملے ہیں۔

ممبئی دھماکوں کے 19 سال بعد اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے 10 سال بعد بمبئی ہائی کورٹ نے تمام 12 ملزمان کو بری کر دیا ہے لیکن اب بھی بہت سے اہم سوالات کے جوابات نہیں ملے ہیں۔
11 جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں کے کئی ڈبوں میں کُل سات دھماکے ہوئے تھے۔ یہ دھماکے ممبئی کی ویسٹرن ریلوے لائن پر سات مختلف ٹرینوں میں ہوئے۔
ان دھماکوں میں 189 افراد ہلاک اور 824 زخمی ہوئے۔ اسے ممبئی پر سب سے بڑے حملوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے ’سات/گیارہ حملوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
اس سے قبل 2015 میں ایک خصوصی عدالت نے پانچ ملزمان کو سزائے موت اور سات کو عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ اب بمبئی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔
ان ملزمان میں سے ایک کمال انصاری 2021 میں وفات پا گئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس انیل کیلور اور جسٹس شیام چندک پر مشتمل بینچ نے کہا ہے کہ ’استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔‘
یہ فیصلہ 12 ملزمان کے خاندانوں اور 2015 میں بری ہونے والے 13ویں ملزم عبدالواحد کے لیے بڑا ریلیف سمجھا جا رہا ہے۔
عبدالواحد نے کہا کہ ’میں بہت خوش ہوں۔ کئی سالوں سے ہم کہہ رہے تھے کہ نہ صرف میں بلکہ دیگر ملزمان بھی بے گناہ ہیں۔‘
لیکن دیگر متاثرین کے لیے انصاف اب بھی دور نظر آتا ہے۔
مہندر پٹالے، جنھوں نے دھماکے میں اپنا بایاں ہاتھ کھو دیا کہتے ہیں کہ ’یہ چونکا دینے والا اور مایوس کن لمحہ ہے۔ اگر 19 سال بعد سب کو رہا کر دیا جاتا ہے تو بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’تفتیش کار ان تمام سالوں کے دوران کیا کر رہے تھے؟ غلطی کہاں ہوئی؟ اصل مجرم کون تھے؟ انھیں اب تک کیوں نہیں پکڑا گیا؟ کیا ہمیں کبھی جوابات ملیں گے؟ اگر اب اصل مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں تو اگلا فیصلہ آنے میں مزید 19 سال لگ سکتے ہیں۔‘
جب ممبئی ان دھماکوں سے چونک گیا تھا
11 جولائی 2006 ممبئی کے لیے کسی عام دن کی طرح شروع ہوا تھا۔ مہندر پٹالے اس دن اپنے ویلے پارلے کے دفتر میں تھے۔
وہ ایک گلاس سٹوڈیو میں ڈیزائنر تھے اور روزانہ لوکل ٹرین سے سفر کرتے تھے۔
پٹالے کہتے ہیں کہ ’میں عام طور پر شام 7:30 کی ٹرین لیتا تھا۔ اس دن میں تھوڑا جلدی نکلا اور تقریباً 6:10 پر ٹرین پکڑ لی۔‘
شام 6:24 پر جب ٹرین جوگیشوری سٹیشن سے نکل رہی تھی تو دھماکہ ہو گیا۔ یہ اس شام کے سات دھماکوں میں سے ایک تھا۔
مہندر کی جان بچ گئی لیکن انھوں نے اپنا بایاں ہاتھ کھو دیا۔ 19 سال بعد بھی انھیں لگتا ہے کہ انھیں انصاف نہیں مل سکا۔

سماعت کیسے ہوئی؟
دھماکوں کے بعد ممبئی پولیس کی اے ٹی ایس نے 13 لوگوں کو گرفتار کیا۔ اس کیس میں 15 ملزمان مفرور تھے۔ اے ٹی ایس کا الزام تھا کہ 'پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں' نے پریشر ککرز میں بم رکھے تھے۔ ماضی میں پاکستانی حکام اِن الزامات کے تردید کر چکے ہیں۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے لشکر طیبہ کے کمانڈر اعظم چیمہ کا نام بھی چارج شیٹ میں شامل تھا۔ یہ چارج شیٹ 10,667 صفحات پر مشتمل تھی۔ الزام لگایا گیا کہ کچھ ملزمان کا تعلق لشکر طیبہ اور کچھ کا سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) سے تھا۔
سب نے الزامات کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ ان سے اعترافی بیان دباؤ میں لیا گیا۔
اس کیس کا فیصلہ آنے میں نو سال لگے۔ یہ کیس ایم سی او سی اے کی خصوصی عدالت میں سنا گیا۔
ایم سی او سی اے کے تحت ایک ایس پی سے اوپر کے رینک کے پولیس افسر کے سامنے دیا گیا اعترافی بیان بطور ثبوت قبول کیا جا سکتا ہے۔
ملزمان نے ایم سی او سی اے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کے بعد عدالت نے دو سال کے لیے سماعت روک دی۔
کچھ ملزمان کی نمائندگی کرنے والے نوجوان وکیل شاہد عظمی کو 2010 میں ان کے دفتر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
دریں اثنا 2008 میں تفتیش نے غیر متوقع موڑ لیا جب ممبئی کرائم برانچ نے پانچ لوگوں کو کالعدم انڈین مجاہدین (آئی ایم) سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا۔
کرائم برانچ نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم لوکل ٹرینوں کے دھماکوں کی ذمہ دار تھی۔ یہ دعویٰ اے ٹی ایس کے دعوؤں کے برعکس تھا۔ 2013 میں آئی ایم کے شریک بانی یاسین بھٹکل نے بھی کہا تھا کہ ان کی تنظیم ان دھماکوں کی ذمہ دار تھی۔
سماعت اگست 2014 میں ختم ہوئی لیکن فیصلہ آنے میں مزید وقت لگا۔
30 ستمبر 2015 کو عدالت نے 13 ملزمان میں سے پانچ کو سزائے موت دی۔ سات کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ 13ویں ملزم عبدالواحد بری ہو گئے۔
جب نچلی عدالت کی طرف سے سزائے موت دی جاتی ہے تو کیس خود بخود ہائی کورٹ میں جاتا ہے۔ جبکہ دیگر مجرم بھی اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔
یہ کیس ہائی کورٹ گیا اور فیصلہ آنے میں مزید 10 سال لگے۔
ہائی کورٹ میں کیا ہوا؟
اس کے بعد سے ایک دہائی گزر چکی ہے۔ ملزمان کی سزا اور اپیل کی سماعت 31 جنوری 2025 کو بمبئی ہائی کورٹ میں مکمل ہوئی۔
جسٹس انیل کیلور اور جسٹس شیام چندک کی خصوصی بنچ نے چھ ماہ سے زائد عرصے تک روزانہ کی بنیاد پر اپیلوں کی سماعت کی۔ ریاست کے مختلف جیلوں میں قید ملزمان نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اس سماعت میں حصہ لیا۔
کئی سینئر وکلا، جن میں اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایس مرلی دھر اور کیرالہ ہائی کورٹ کے سابق جج ایس ناگاموتھو شامل تھے، نے ملزمان کی طرف سے دلائل پیش کیے۔
دفاع کا موقف
وکلا نے دلیل دی کہ ملزمان سے دباؤ میں اعترافی بیان لیا گیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ 'بم کس نے بنائے، دھماکہ خیز مواد کس نے حاصل کیا، اور انھیں ٹرینوں میں کس نے رکھا۔'
خصوصی پبلک پراسیکیوٹرز راجہ ٹھاکرے اور اے چملکر نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ پانچ ملزمان کی سزائے موت کی توثیق کرے۔ انھوں نے سات دیگر کو دی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھنے کی بھی درخواست کی۔
سماعت 31 جنوری 2025 کو مکمل ہوئی۔ تقریباً چھ ماہ بعد 21 جولائی 2025 کو ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 'تمام 12 ملزمان کو فوری طور پر جیل سے رہا کیا جائے اگر وہ کسی دوسرے کیس میں مطلوب نہ ہوں۔'

19 سال کی جدوجہد
2006 میں عبدالواحد پر سیمی کا رکن ہونے اور ایک گھر کرائے پر لینے کا الزام لگایا گیا تھا۔ کہا گیا کہ کچھ ملزمان اس گھر میں ٹھہرے تھے۔
اس پر انھوں نے کہا کہ 'میں کسی ایسی تنظیم کا رکن نہیں تھا۔ میں ایک استاد تھا۔ اور اس وجہ سے میرا بہت سے لوگوں سے رابطہ تھا۔ لوگ مجھے پروگراموں کے لیے دعوت دیتے رہتے تھے۔'
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان وجوہات کی بنا پر ان کا نام 2001 میں ایک کیس میں شامل کیا گیا اور اسی وجہ سے پولیس نے انھیں 2006 میں گرفتار کیا۔
انھوں نے کہا کہ 'میں 2001 کے کیس میں 2013 میں بری ہوا۔ جج نے بھی کہا کہ اس شخص کا سیمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پولیس کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اس فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔'
عبدالواحد پہلے وکھرولی میں رہتے تھے۔ لیکن 2006 میں وہ اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کے ساتھ ممبرا میں کرائے کے گھر میں رہنے لگے۔ وہ روزانہ لوکل ٹرین سے بائکلہ کے ایک سکول جاتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ '11 جولائی 2006 کو میں ہمیشہ کی طرح ٹرین سے سکول گیا اور دوپہر کو گھر واپس آیا۔ شام کو میں اپنے پڑوسی کے گھر ٹی وی دیکھ رہا تھا جب ٹرین دھماکوں کی بریکنگ نیوز آنے لگی۔ یہ دیکھ کر ہمیں بہت دکھ ہوا۔ میں گھر آیا، کھانا کھایا اور سو گیا۔ اگلے دن ٹرینیں بند تھیں اور میں کام پر نہیں جا سکا۔ اسی دن میرے بھائی نے فون کیا اور بتایا کہ پولیس مجھے ڈھونڈ رہی ہے۔'
واحد اس کے بعد خود پولیس سٹیشن گئے لیکن اے ٹی ایس نے مبینہ طور پر آدھی رات کو ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور انھیں حراست میں لے لیا۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اس دن سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک ختم نہیں ہوا۔'
جیل میں رہتے ہوئے، عبدالواحد نے قانون کی ڈگری مکمل کی اور تفتیش کے عمل پر ایک کتاب لکھی جس کا نام 'بے گناہ قیدی' تھا۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سات گیارہ حملوں میں اعترافی بیان زبردستی لیا گیالیکن عدالت میں استغاثہ نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔
عدالت نے کہا کہ 'استغاثہ شک سے بالاتر ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ملزمان نے یو اے پی اے کے تحت قابل سزا جرم کیا۔'
واحد کہتے ہیں کہ 'میری کتاب میں جن افسران کا نام لیا گیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ جو میں نے لکھا وہ سچ نہیں ہے۔'
بی بی سی نے اس کیس میں شامل کچھ افسران سے رابطہ کیا جن کا عبدالواحد کی کتاب میں ذکر ہے۔
گذشتہ ماہ اس وقت کے اے ٹی ایس چیف کے پی راگھووانشی نے کو بتایا کہ 'اگر تفتیش کار کے ارادے نیک ہیں اور کوئی بدنیتی نہیں ہے، تو قانون اسے تحفظ دیتا ہے۔ اگر وہ اپنی سرکاری ڈیوٹی کے دوران غلطی کرتا ہے تو اسے تحفظ ملتا ہے بشرطیکہ اس کے عمل میں کوئی بدنیتی نہ ہو۔
'دہشت گردی کے معاملات میں اکثر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ملزمان انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ایسی صورتوں میں انھیں ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ جرم قبول کریں، تفتیش کاروں کو گمراہ کریں، پولیس پر جھوٹے الزامات لگائیں اور الجھن پیدا کریں۔'
عبدالواحد تفتیش پر سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'میں پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں۔ اگر اصل مجرم پکڑے گئے ہوتے تو یہ ان لوگوں کے لیے سبق ہوتا جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔'

پی ایچ ڈی اور جیل کے حقوق کے لیے کام
اپنی بریت کے بعد عبدالواحد نے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔ اس کے بعد انھوں نے جیل کے حقوق پر پی ایچ ڈی کی اور ایک کارکن کے طور پر سرگرم ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'میں بری ہو گیا لیکن واقعی ایسا نہیں لگتا کیونکہ پولیس اور دیگر ایجنسیاں ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ لہذا یہ اذیت اب بھی جاری ہے۔'
پولیس کا اچانک فون اور ایجنسیوں کا ان کے گھر پر آنا ان کے قریبی لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'کچھ رشتہ دار اور مسلم کمیونٹی کے ارکان کہتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ ہیں لیکن وہ اس بارے میں کھل کر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ مسلم نوجوانوں میں پولیس کا امیج اچھا نہیں ہے کیونکہ وہ کمیونٹی کے نوجوانوں کو ولن کے طور پر دیکھتے ہیں۔'
ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے عبدالواحد نے کہا تھا کہ 'میں نے اپنی جوانی کے کئی سال ایک ایسے جرم میں ضائع کیے جو میں نے نہیں کیا۔ لیکن اگر ہمیں عدلیہ پر بھروسہ نہ ہو تو ہمارے پاس کیا آپشن ہے؟'
دھماکوں کے بعد مہندر کام کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ لیکن ویسٹرن ریلوے نے انھیں نوکری دی۔
وہ اب مصنوعی اعضا کی تحقیق اور جانچ میں بھی مدد کرتے ہیں اور سات گیارہ حملوں کے متاثرین کی یاد میں ماہم میں ہونے والی سالانہ میٹنگ میں شرکت کرتے ہیں۔
وہ اب بھی روزانہ ٹرین سے سفر کرتے ہیں۔
مہندر کہتے ہیں کہ 'حالات بدل گئے ہیں، لیکن خدشات باقی ہیں۔ پولیس حملوں کی سالگرہ کے آس پاس سکیورٹی بڑھا دیتی ہے۔ لیکن کچھ بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، اس لیے خوف باقی رہتا ہے۔'