پاکستان کے ایوان بالا یا سینیٹ کے ممبران کے انتخاب کا عمل صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کے ووٹوں سے آج مکمل ہو جائے گا۔
اڑتالیس نشستوں کے لیے ہونے والے انتخاب میں پنجاب اور بلوچستان کے 18 ممبران بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔ اب بقیہ 30 سیٹوں پر مقابلہ ہو رہا ہے۔گہری سیاسی تقسیم والے معاشرے میں کسی بھی سطح کے انتخابات سے جڑے تضادات، اختلافات اور مسائل الیکشن کے موقع پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ملک کی مقننہ میں قومی اسمبلی معروف معنوں میں عوامی نمائندگی کی مظہر ہے جبکہ سینیٹ کا ادارہ ہاؤس آف فیڈریشن یا قومی اکائیوں کی نمائندگی اور مفادات کا ترجمان گردانا جاتا ہے۔سینیٹ آف پاکستان کے ادارے کو قائم ہوئے 50 برس ہو چکے ہیں۔ اس کے بنیادی ڈھانچے، طریقۂ انتخاب، افادیت اور سیاسی نظام میں موثر کارکردگی پر بحث و مباحثہ اور دانشورانہ گفتگو ہمیشہ جاری رہتی ہے۔مگر ہر تین برس بعد اس ایوان کے انتخابات کے موقع پر یہ سوالات ہر عام و خاص کی گفتگو کا موضوع بن جاتے ہیں۔ایوان بالا کے موجودہ الیکشن میں طاقتور آزاد امیدواروں کی کامیابی کا بڑھتا ہوا تناسب اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے نمائندوں کے انتخاب کی ترجیح اور معیار کے پیمانوں پر قومی میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مختلف طرح کی آرا ہیں۔ان حالات میں ایک بنیادی سوال اور اعتراض شد و مد سے سامنے آتا ہے کہ ایک فیڈریشن میں متنوع ثقافتی، لسانی، علاقائی اور نسلی گروہوں اور اکائیوں کی سوچ اور مطالبات کے اظہار کے لیے بنائے جانے والے سیاسی ادارے کا حصہ کن لوگوں کو ہونا چاہیے؟موجودہ الیکشن کی ماضی سے کوئی مماثلت ہے؟پاکستان میں سینیٹ کے پہلے الیکشن جولائی 1973 میں ہوئے تھے۔ اس وقت یہ ہاؤس 45 اراکین پر مشتمل تھا۔1977 کے الیکشن کے بعد ممبران کی تعداد 63 کر دی گئی۔آئین کی روح کے مطابق سینٹ آف پاکستان کو غیر فعال یا تحلیل نہیں کیا جا سکتا مگر دو فوجی حکمرانوں نے اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ اس ادارے کو غیر قانونی طور پر ختم کیا۔ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد نئے انتخابات تک سینیٹ معطل رہا۔سینیٹ کے موجودہ الیکشن میں پنجاب اور بلوچستان سے آزاد امیدواروں کی کامیابی کو مختلف معنی دیے جا رہے ہیں۔ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد نئے انتخابات تک سینیٹ معطل رہا۔ فوٹو: اے ایف پیان امیدواروں میں صحافت سے نگران وزیر اعلٰی بننے والے سید محسن نقوی، بیوروکریسی سے حکومتی ایوانوں میں قدم رکھنے والے احد چیمہ اور معاشی ماہر اورنگزیب خان شامل ہیں۔بلوچستان سے سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی باپ پارٹی کی صوبائی اسمبلی میں مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے باوجود بلا مقابلہ کامیابی اور سندھ سے فیصل واوڈا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزدگی اور حمایت ان انتخابات کے زیر بحث موضوعات ہیں جس پر یہ تجزیے اور تبصرے سننے کو مل رہے ہیں کہ انہیں ایوان بالا میں پہنچانے والے طاقتور حلقے ہیں۔ان افراد کے سینیٹ کے ذریعے پارلیمان کا حصہ بننے کے دور رس سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں۔اسی سے ملتی جلتی صورتحال 1985 کے سینیٹ الیکشن کے موقع پر سامنے آئی تھی جب ایک سابق بیوروکریٹ اور ماہرین معاشیات اس ایوان کا حصہ بنے۔اگرچہ اس وقت عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے مگر پھر بھی صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے تھا اور سینیٹ کے ممبران کی نامزدگی اور انتخاب میں سیاسی جماعتیں پوری طرح شامل تھیں۔انتظامی طور پر طاقتور عہدوں پر فائز رہنے والے غلام اسحاق خان، معاشی امور کے ماہرین ڈاکٹر محبوب الحق اور سرتاج عزیز اس انتخاب میں سینیٹ کا حصہ بنے تھے۔آگے چل کر غلام اسحاق خان چیئرمین سینیٹ اور صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ ڈاکٹر محبوب الحق جونیجو حکومت میں وزیر خزانہ جبکہ سرتاج عزیز آنے والے ادوار میں خزانہ اور امور خارجہ کے محکموں کے سربراہ رہے۔ماضی کے انتخابات میں بھی آزاد حیثیت سے سینٹیر منتخب ہونے والوں کی مثالیں موجود ہیں۔2003 میں سندھ سے محمد امین دادا بھائی اور موجودہ خیبر پختون خوا سے اعظم سواتی اور گلزار خان آزاد حیثیت میں جیتے تھے۔ اسی طرح 2021 میں بلوچستان سے عبدالقادر آزاد حیثیت میں جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے باوجود بلا مقابلہ سینیٹ کے رکن بنے۔ فوٹو: اے ایف پیٹیکنوکریٹس کے کوٹے پر کسے منتخب ہونا چاہیے؟ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے 1985 میں سینیٹ کا ادارہ بحال کرنے کے لیے انتخابات کروائے تو ممبران کی تعداد 63 سے بڑھا کر 87 کر دی۔اضافی سیٹوں کا مقصد علمائے کرام کو ایوان بالا کا ممبر بنانا تھا۔ اس غرض سے ’ٹیکنوکریٹس اور علماء‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔اس اضافی کوٹے سے علماء کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں کے ماہرین کے لیے سینیٹ کا ممبر بننے کا دروازہ کھل گیا۔صحافت اور فلم میں کنگ کا پس منظر رکھنے والے جاوید جبار بھی 1985 میں سینٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاسی نظام میں مختلف شعبوں کے ماہرین کے لیے ایوان بالا میں پہنچ کر پالیسیوں اور فیصلوں کا حصہ بننے کا ذریعہ ٹیکنوکریٹس کے کوٹے پر الیکشن میں حصہ لینا ہے جس سے غیر روایتی اور تجربہ کار افراد سیاسی نظام کا حصہ بنتے ہیں۔جاوید جبار نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب سیاسی جماعتیں مختلف شعبوں کے ماہرین کے بجائے اپنے کارکنوں اور حامیوں کو سامنے لاتی ہیں۔الیکشن کے موقع پر ریٹرننگ افسران کو چاہیے کہ وہ اس امر کی چھان بین کریں کہ کون ٹیکنوکریٹ کے معیار اور صلاحیت پر پورا اترتا ہے اور کون نہیں۔نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات کے استاد اور سیاسی تجزیہ نگار طاہر نعیم ملک ملکی سیاست میں ماہرین کی براستہ سینیٹ شمولیت کے حامی ہیں۔اردو نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنوکریٹس اور علماء کے کوٹے میں درکار صلاحیتوں اور شعبہ جات میں ابہام کو دور کر کے مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔’علما کی نمائندگی اب مذہبی جماعتوں کے اراکین جنرل نشستوں پر منتخب ہو کر بہتر انداز میں کر رہے ہیں۔ ہمیں ٹیکنوکریٹس کے حوالے سے دائرہ کار کو وسیع کرنا ہوگا۔‘ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے سینیٹ ارکان کی تعداد 63 سے بڑھا کر 87 کر دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پیصوبائی کوٹے کا حقدار کون؟1973 کے آئین میں سینیٹ کو ہاؤس آف فیڈریشن کا درجہ دیا گیا ہے۔ یوں صوبوں کی برابر نمائندگی کے ذریعے وفاقیت کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔چاروں صوبوں کو ایوان بالا میں برابر نمائندگی حاصل ہے۔ ہر صوبے سے 23 نمائندے اس کا حصہ ہیں۔ قومی اسمبلی میں چھوٹے صوبوں کی عددی حیثیت کم ہونے کی وجہ سے صوبائی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اس کمی کو سینیٹ کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک صوبے کے کوٹے پر دوسرے صوبے کے کسی فرد کی نامزدگی اور کامیابی ہمیشہ سے ایک متنازعہ معاملہ رہا ہے۔ موجودہ انتخابات میں بلوچستان سے اے این پی کے ایمل ولی خان کی پیپلز پارٹی کی حمایت سے کامیابی نے اس بحث کے حق و مخالفت کے دلائل میں گرمی پیدا کر دی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے کسی ایک صوبائی اسمبلی میں اکثریت ملنے پر دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو اس صوبے کی کوٹے پر سینیٹ کا ممبر بنوایا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے ماضی میں پنجاب کے رہنے والے رحمان ملک اور مصطفی نواز کھوکھر کو سندھ سے سینیٹر منتخب کروایا تھا۔مسلم لیگ نون نے کراچی سے تعلق رکھنے والے نہال ہاشمی اور سلیم ضیا کو پنجاب کے کوٹے پر ایوان بالا میں پہنچایا۔ایم کیو ایم نے اسلام اباد کے میاں عتیق شیخ اور کے پی کے کے محمد علی سیف کو سندھ اسمبلی میں حاصل ہونے والی نشستوں کے بل بوتے پر کامیاب کروایا تھا۔2003 کے سینیٹ الیکشن میں صوبے کاباشندہ نہ ہونے کا معاملہ ہائی کورٹ پہنچ گیا تھا۔متحدہ مجلسِ عمل نے کراچی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر خورشید احمد کو کے پی کے (سابق صوبہ سرحد) سے سینیٹ کا ٹکٹ دیا۔ اے این پی کے بشیر احمد بلور نے ان کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ عدالت کی طرف سے اجازت ملنے پر خورشید احمد ایوان بالا کے ممبر بنے تھے۔احمد بلال محبوب سینیٹ کی ممبرشپ کے لیے صوبے کا رہائشی نہ ہونے کے حوالے سے اعتراضات کو غیر سیاسی سوچ کا ائینہ دار قرار دیتے ہیں۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ کسی فرد کو سینیٹ میں بھیجنے کا فیصلہ اس صوبے کے منتخب نمائندوں کو کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے صوبے کے فرد کو اس کااہل سمجھتے ہیں تو یہ ان کا اختیار ہے۔دوسری جانب طاہر نعیم ملک اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک دن کوئی شخص اپنا رہائشی ایڈریس اور ووٹ کا اندراج کسی صوبے میں کرواتا ہے اور اگلے دن اسے یہاں سے سینیٹ میں نمائندگی کا ٹکٹ مل جاتا ہے۔انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے فرحت اللہ بابر کا ٹنیور جب ختم ہوا تو انہوں نے اگلی مدت کے لیے سندھ کے کوٹے پر پارٹی ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب کے رہنے والے رحمان ملک کو سندھ سے سینیٹر منتخب کروایا تھا۔ فوٹو: اے ایف پیطریقہ انتخاب میں تبدیلی مسائل کا حل؟ماہرین سیاسیات اور دانشوروں کی تحریروں اور تقریروں میں اس سوال کے مختلف جوابات اور جہتیں سامنے آتی ہیں۔لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے وابستہ استاد اور دانشور ڈاکٹر وسیم جو ’الیکٹرول ریفارمز ان پاکستان‘ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں اپنے نقطۂ نظر کے لیے دلائل کا سہارا لیتے ہیں، ان کے خیال میں سینیٹرز کا براہ راست انتخاب اس ادارے کی فعالیت کو بہتر کر سکتا ہے۔اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے اپنی تجویز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کا موجودہ طریقۂ انتخاب نمائندگی کے درست تصور سے متصادم ہے۔ سینیٹ کا مقصد صوبوں کی نمائندگی تھا جو کہ اب سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بن کر رہ گیا ہے۔ڈاکٹر وسیم احمد نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سینیٹ کے انتخاب میں مخصوص سیٹوں پر منتخب ہونے والی خواتین اور اقلیتی نمائندے بھی ووٹ دیتے ہیں۔وہ خود غیر منتخب ہوتے ہیں اور جب وہ کسی اور شخص کا انتخاب کریں گے تو نمائندگی کا تصور اور دھندلا ہو جائے گا۔وہ مزید کہتے ہیں کہ سینیٹ کا ادارہ فیڈرل ہاؤس آف چیمبر کی حیثیت رکھتا ہے مگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ناموزں افراد کے انتخاب نے اسے ہاؤس آف پارٹی چیمبر بنا دیا ہے۔اسی طرح اس ایوان کو بجٹ کی منظوری کا اختیار بھی حاصل نہیں جو کہ نمائندگی کی روح کے خلاف ہے۔ماہرین اور مشہور شخصیات کی نامزدگی؟دنیا میں نامزدگی کے طریقہ کار کے ذریعے سیاسی اور انتظامی اداروں میں غیر معمولی صلاحیتوں اور مہارتوں کی حامل شخصیات یا کسی فن یا ہنر میں یکتا افراد کی مہارت اور شہرت سے استفادہ کیا جاتا ہے۔بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں ریاستوں سے منتخب ہو کر آنے والے نمائندوں کے علاوہ بھارتی صدر کو وزیراعظم کی سفارش پر نامزدگیوں کا اختیار بھی حاصل ہے۔راجیہ سبھا میں نامزد ہو کر آنے والوں میں ماہرین تعلیم، سائنس دانوں اور فلاح عامہ کے شعبوں میں غیر معمولی شہرت رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ صف اول کے فنکاروں، موسیقاروں، گلو کاروں، ادیبوں اور مصوروں کی بہت بڑی تعداد سیاسی نظام کا حصہ بنتی رہی ہے۔2003 کے سینیٹ الیکشن میں صوبے کاباشندہ نہ ہونے کا معاملہ ہائی کورٹ پہنچ گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پینامور بھارتی فلمی ہیرو پرتھوی راج کپور 1952 سے 1960 تک آٹھ سال تک راجیہ سبھا کا حصہ رہے۔ بالی وڈ کی افسانوی شہرت رکھنے والی اداکارائیں نرگس، شبانہ اعظمی، ریکھا، ہیما مالنی اور وجنتی مالا مختلف ادوار میں بھارتی ایوانِ بالا کا حصہ رہی ہیں۔ہندوستان کی صف اول کی گلو کارا لتا منگیشکر 1999 سے2005 تک ایوان بالا کا حصہ رہی۔پنجابی زبان کی نامور شاعرہ اور لکھاری امرتا پریتم اور عالمی شہرت یافتہ ستار نواز روی شنکر بھی چھ سال تک راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوتے رہے۔ہندوستان کے نامور صحافی اور دانشور خشونت سنگھ اورکلدیپ نائر کے علاوہ معروف مصور ایم ایف حسین بھی ایک وقت میں اس ایوان کے ممبر تھے۔عالمی شہرت یافتہ بھارتی کرکٹر سچن ٹنڈولکر اس ہاؤس کے ممبر نامزد ہو چکے ہیں۔کیا پاکستان میں بھی نامزدگی کے طریقۂ کار سے غیر معمولی شخصیات کو سینیٹ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟ڈاکٹر وسیم احمد اور احمد بلال محبوب اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں نامزدگی کا طریقہ کار نمائندگی کے تصور سے ٹکراتا ہے۔ مزید یہ کہ اس طریقہ کار کو اپنانے سے نامزدگیوں کی دوڑ شروع ہو جائے گی جس کے اپنے مضمرات ہیں۔البتہ جاوید جبار اس خیال کے حامی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہرت اور عوامی پذیرائی رکھنے والی شخصیات کا ایوان بالا کا ممبر بننا نظام میں بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے یہ سارا بحث و مباحثہ جب تک ایوان کے ایجنڈے اور اس میں بیٹھنے والے افراد کی سوچ و فکر کا حصہ نہیں بنے گا اس وقت تک کسی بڑی تبدیلی کا خیال محض خود فریبی ہوگی۔