ایران پر آبنائے ہرمز میں ’اسرائیلی‘ مال بردار جہاز پر قبضے کا الزام: ’ایران کو صورتحال مزید خراب کرنے کے نتائج بھگتنا ہوں گے‘

ایران پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے سنیچر کی علی الصبح آبنائے ہرمز سے گزرنے والے ایک ایسے مال بردار تجارتی بحری جہاز پر قبضہ کر لیا ہے جس کا تعلق اسرائیلی ارب پتی شخصیت سے بتایا جاتا ہے۔
ایران
Getty Images

ایران پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے سنیچر کی علی الصبح آبنائے ہرمز سے گزرنے والے ایک ایسے مال بردار تجارتی بحری جہاز پر قبضہ کر لیا ہے کہ جسے اسرائیل کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔

مال بردار جہازوں کی کمپنی ایم ایس سی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایم ایس سی ایریز‘ کو ایرانی سپیشل فورسز نے اپنے اہلکاروں کو متحدہ عرب امارات کے ساحل سے تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) کے فاصلے پر سوار کیا۔

خبر رساں ادارے اے پی نیوز کے ذریعے حاصل کی گئی فوٹیج میں فوجیوں کو ہیلی کاپٹر سے جہاز پر اُترتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

پرتگالی جہاز کا تعلق اسرائیلی ارب پتی ایال اوفر سے بتایا جا رہا ہے۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اپریل کے اوائل میں دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو فضائی حملے میں تباہ کرنے کے بعد اسرائیل پر ایرانی حملے کا خدشہ بڑھ گیا تھا۔ اسرائیل نے سنیچر کے روز کہا تھا کہ ایران کو صورت حال کو مزید خراب کرنے کا فیصلہ کرنے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

آخری بار ٹریکنگ کی مدد سے ملنے والے ڈیٹا میں ایم ایس سی ایریز کو متحدہ عرب امارات کے ساحل سے 18 گھنٹے قبل آبنائے ہرمز کی طرف جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ٹریکنگ ڈیٹا کو بند کر دیا، جو خطے میں اسرائیل سے وابستہ جہازوں کے لئے عام ہے۔

برطانیہ کی میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز ایجنسی نے ایک بیان میں بورڈنگ کی تصدیق کی ہے۔ اس میں ایران کے ملوث ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ یہ کہا گیا کہ جہاز کو متحدہ عرب امارات میں فجیرہ کے ساحل کے قریب ’علاقائی حکام‘ نے قبضے میں لے لیا تھا۔

تاہم ایرانی میڈیا نے فوری طور پر اس واقعے میں ملک کی سپیشل فورسز کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب کی بحری شاخ نے ایم ایس سی ایریز کو قبضے میں لے لیا ہے کیونکہ اس کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جہاز کو ایرانی پانیوں میں لے جایا جا رہا ہے۔

ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر سے بحری جہاز پر کُچھ لوگ اُتر رہے ہیں۔ عملے کے ایک رکن کو چیختے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’باہر مت نکلو۔‘

ویڈیو میں ایک کمانڈو کو کور فائر فراہم کرنے کے لیے گھٹنے ٹیکتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے جبکہ دیگر فوجی جہاز پر سوار ہو رہے ہیں۔ ایم ایس سی کے مطابق پکڑے جانے کے وقت جہاز پر عملے کے 25 ارکان سوار تھے۔

تہران میں حکام نے ابھی تک اس قبضے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

ایال آفر کی کارپوریشن، جوڈیک انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ وہ ایم ایس سی سے وابستہ ہے، لیکن ایم ایس سی جہاز کے انتظام کے لئے ذمہ دار ہے۔

’ایران ’جلد یا بادیر‘ اسرائیل پر حملہ کرے گا‘

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انھیں توقع ہے کہ ایران ’جلد یا بادیر‘ اسرائیل پر حملہ کرے گا۔ رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والے فضائی حملے میں اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد ایران کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی تاہم بڑے پیمانے پر یہی سمجھا جا رہا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہی ہاتھ ہے۔

دو امریکی عہدیداروں نے ’سی بی ایس‘ نیوز کو بتایا ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے پاس موجود انٹیلیجنس اطلاعات کے مطابق اس ممکنہ ایرانی حملے میں 100 سے زیادہ ڈرون، درجنوں کروز میزائل اور شاید بیلسٹک میزائل بھی استعمال ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے اسرائیل میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ادھر اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ایران کے ممکنہ حملے کی تیاری کے لیے سینئر حکام سے ملاقات کی ہے اور اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ وہ ’دفاعی اور جارحانہ طور پر‘ تیار ہے۔

صدر بائیڈن نے ایران کے نام پیغام میں کہا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیلی دفاع کے لیے وقف ہیں، ہم اسرائیل کی مدد کریں گے، ہم اسرائیل کے دفاع کے لیے مدد کریں گے اور ایران کامیاب نہیں ہو گا۔‘

خیال رہے کہ اس سے قبل امریکہ نے ایران کی جانب سے ممکنہ حملے کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل میں موجود اپنے سفارتکاروں پر سفری پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ انھوں نے اسرائیل میں موجود اپنے سفارتی عملے کو تنبیہ کی ہے کہ وہ یروشلم اور تل ابیب کے علاقوں سے باہر سفر کرنے سے گریز کریں۔

یاد رہے کہ ایران نے 11روز قبل (یکم اپریل) شام کے دارالحکومت دمشق میں واقع اپنے سفارتخانے پر ہونے والے ایک حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے بڑی جوابی کارروائی کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس حملے میں سینیئر ایرانی کمانڈر سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن عام خیال یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

ایران غزہ میں اسرائیل سے لڑنے والے مسلح فلسطینی گروپ حماس کی حمایت کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ پورے خطے میں سرگرم مختلف پراکسی گروپس، جیسا کہ لبنان میں حزب اللہ،اکثر اسرائیلی اہداف کے خلاف حملے کرتے رہتے ہیں۔

دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں شام اور لبنان میں ایران کی ایلیٹ قدس فورس کے ایک سیینئر کمانڈر کے علاوہ دیگر عسکری شخصیات بھی شامل تھیں۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا تھا جب غزہ میں جاری جنگ کو پورے خطے میں پھیلنے سے روکنے کے لیے عالمی سطح پر سفارتی کوششیں جاری تھیں۔

بدھ کے روز بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا کہ (قونصل خانے پر حملے کے تناظر میں) ایران ایک ’بڑے حملے‘ کی دھمکی دے رہا ہے تاہم انھوں نے اس موقع پر اسرائیل کا ہر طرح سے ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

تصویر
Getty Images
اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے بھی کہا ہے کہ اُن کی حکومت کسی بھی سکیورٹی چیلنج سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ انتباہ بھی کیا کہ اسرائیل ہر ایسے ملک کو نقصان پہنچائے گا جو اسے (اسرائیل) نقصان پہنچانے کے درپے ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت اسرائیل کی ریاست کی سلامتی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی آپریشنز کے ذمہ دار کمانڈر ایرک کریلا نے سکیورٹی خطرات پر بات چیت کے لیے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔

پینٹاگون نے کہا کہ کمانڈر ایرک کا یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا لیکن ’حال ہی ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے‘اس کا شیڈول بدلا گیا ہے اور اسے طے شدہ وقت سے پہلے کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے ایک ٹیلفونک گفتگو میں برطانیہ کے وزیر خارجہ لارڈ کیمرون نے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیا ہے۔

لارڈ کیمرون نے کہا کہ انھوں (برطانیہ) نے ’واضح کر دیا ہے کہ ایران کو مشرق وسطیٰ کو وسیع تر تنازع کی جانب دھکیلنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ حالات کا درست تجزیہ نہ کرنا مزید تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین، سعودی عرب اور ترکی کے وزرائے خارجہ سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ مزید کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ سے ہونے والے ٹیلیفونک رابطے کے بعد چین نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ’تعمیری کردار‘ ادا کرے۔ چین نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کی بھی کُھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کی جانب سے کیے جانے والا ممکنہ جوابی حملے براہ راست ایران کرے گا یا وہ اس کام کے لیے اپنی پراکسی (جیسا کہ حزب اللہ) کو استعمال کرے گا۔

گذشتہ اتوار کو ایک ایرانی عہدیدار نے خبردار کیا تھا کہ دنیا بھر میں موجود اسرائیل کے سفارتخانے ’اب محفوظ نہیں ہیں‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ممکنہ طور پر کسی اسرائیلی قونصل خانے کی عمارت ایران کا ممکنہ ہدف ہو سکتی ہے۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے حال ہی میں اپنے امریکی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ’اسرائیلی سرزمین پر کسی بھی براہ راست ایرانی حملے‘ کے نتیجے میں مناسب ردعمل دینے کی ضرورت ہو گی۔

جمعرات کو سفری پابندیوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا تھا کہ وہ یہ تفصیلات فراہم نہیں کریں گے کن جائزوں کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے مزید کہا کہ ’واضح طور پر ہم مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر اسرائیل میں درپیش خطرے کی صورتحال کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔‘

برطانیہ کے دفتر خارجہ نے بھی اسرائیل کے لیے اپنے سفری ہدایت نامے کو اپ ڈیٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ایران کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر حملے کے امکان کا خدشہ بڑھ گیا ہے،اور یہ کہ اس طرح کا ممکنہ حملہ وسیع تر کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے۔‘

اسی طرح فرانس نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ’آنے والے دنوں میں ایران، لبنان، اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کریں۔‘ جبکہ ایران میں موجود فرانسیسی سفارتکاروں کے اہلخانہ کو واپس بلایا جا رہا ہے۔

جرمن ایئر لائن ’لیفتھیزا‘ نے ایرانی دارالحکومت تہران کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی کے دورانیے میں مزید ایک ہفتے کی توسیع کر دی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow