دماغ کے لیے ایسٹروجن اور پروجیسٹرون جیسے ہارمنز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تو ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہارمونز کی مقدار کو بدلنے والی مانع حمل ادویات سے ذہنی صحت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

دنیا بھر میں لاکھوں خواتین زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسی مانع حمل ادویات کا استعمال کرتی ہیں جن کا ہارمونز پر اثر ہوتا ہے۔
ویسے تو ان ادویات کا بنیادی استعمال حمل روکنے کے لیے کیا جاتا ہے لیکن یہ ماہواری سے منسوب دیگر مسائل سے نمٹنے میں بھی مدد کرتی ہیں جیسے جسم میں مختلف جگہ پر درد، کیل مہاسے اور مزاج کا تیزی بدلنا۔
تاہم ہارمونز پر اثرانداز ہونے والی ان مانع حمل ادویات کا استعمال کرنے والی خواتین میں سے 10 فیصد کو ڈپریشن کا خطرہ ہوتا ہے۔
دماغ کے لیے ایسٹروجن اور پروجیسٹرون جیسے ہارمون انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تو ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہارمونز کی مقدار کو بدلنے والی ان مانع حمل ادویات سے ذہنی صحت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
میں نیورو سائنسکے اس پہلو پر تحقیق کر رہی ہوں جو ذہنی دباؤ اور جذبات کے اتار چڑھاؤ سے متعلقہے۔ اس کے علاوہ میں جنس میں ذہنی بیماریوں سے نمٹنے کی قوت کا بھی مطالعہ کرتی ہوں۔
اگر ہم یہ جان سکیں کہ ہارمونز پرمبنی مانع حمل ادوایات مزاج پر کیسے اثرانداز ہوتی ہیں تو محققین پتہ لگا سکتے ہیں کہ ان ادویات کا استعمال کس کے لیے بہتر رہے گا اور کس پر اس کے منفی اثرات کا خدشہ ہوتا ہے۔
ہارمون پر مانع حمل ادویات کیسے اثرانداز ہوتی ہیں؟

امریکہ سمیت کئی دیگر مغربی ممالک میں مانع حمل کا سب سے عام طریقہ ’پِل‘ یعنی گولی کھا لینا ہے۔ یہ گولی مصنوعی ایسٹروجن اور مصنوعی پروجسٹیرون سے بنی ہوتی ہے۔
یہ وہی دو ہارمون ہیں جو ماہواری بہتر رکھنے، بیضہ دانی سے اووم یعنی انڈوں کے اخراج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسٹروجن ہارمون کا کام جسم میں باقی ہارمونز کا بروقت اخراج ہے جبکہ پروجیسٹرون ہارمون حمل کے ٹھہرنے میں معاون ہوتا ہے۔
تاہم شاید یہ بات سننے میں تھوڑی عجیب لگے کہ حمل کے لیے جن ہارمونز کی ضرورت ہوتی ہے، وہی ہارمونز مانع حمل کے لیے بھی اہم ہیں۔
اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جسم میں موجود ایک ہارمون کی مقدار کم کرنے کے لیے ہم ایسی دوا کھائیں جس سے وہی ہارمون ہمارے جسم میں داخل بھی ہو گا؟
ہمارے جسم میں ان ہارمونز کا اخراج ایک ترتیب کے تحت ہوتا ہے جسے ’ہارمونل سائیکل‘ کہا جاتا ہے۔ اس ہارمونل سائیکل کی اپنی مدّت ہوتی ہے اور اسے ترتیب سے چلانا ان ہارمونز کا کام ہوتا ہے۔
جب جسم میں پروجیسٹرون کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو خلیے مزید پروجیسٹرون بنانا بند کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو ’نیگیٹیو فیڈ بیک لوپ‘ کہتے ہیں۔
حمل کو روکنے کے لیے یہ گولی روزانہ کھائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس مقصد کے لیے اِمپلانٹ اور بچہ دانی کے اندر رکھے جانے والا چھلہ (ring) کا بھی استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ حمل سے اجتناب کرنے کے لیے اِمپلانٹ کے طریقہ کار میں چھوٹی سی ایک راڈ بازو کے اوپری حصے میں جلد کے نیچے نصب کی جاتی ہے جبکہ رِنگ یا چھلہ ایک نرم پلاسٹک کی ربر بینڈ نما چیز ہوتی ہے جو اندام نہانی اور بچہ دانی کے درمیان نصب کیا جاتا ہے۔
عمل روکنے کے لیے استعمال ہونے والی گولیوں اور آلات سے جسم میں ان ہارمونز کا اخراج کم ہو جاتا ہے جس وجہ سے حمل کے لیے جسم تیّار نہیں ہو پاتا۔
یہ عمل ہارمونل سائیکل میں خلل پیدا کرتا ہے جس کا اثر بیضے کے اخراج، ماہواری اور حمل سب پر اثر پڑ تا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
حمل روکنے کی ادوایات اور دیگر طریقوں کا دماغ پر اثر

مانع حمل ادویات اور دیگر طریقوں کا اثر صرف بیضہ دانی اور رحم پر نہیں ہوتا۔
دماغ کا وہ حصّہ جو بیضہ دانی میں ہارمونز کے اخراج کو کنٹرول کرتا ہے، اسے ’ہائیپو تھیلیمس‘ کہتے ہیں۔
ویسے تو ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کو ’اوویرین ہارمونز‘ کہا جاتا ہے لیکن یہ دماغ میں بھی موجود ہوتے ہیں۔
افزائش نسل کے علاوہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون دماغ سے پیغامات دینے والے نیورونز اور خلیوں کے دیگر عوامل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسٹروجن یادداشت میں مدد کرتا ہے اور دماغ کو نقصان پہنچانے سے بچاتا ہے۔
پروجیسٹرون جذبات کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جب ان مانع حمل گولیوں اوردیگر طریقوں سے دماغ اور جسم میں ان ہارمونز کی مقدار میں تبدیلیاں آتی ہیں تو اس سے مزاج پر اچھا یا برا اثر پڑ سکتا ہے۔
مانع حمل ادویات اور ذہنی دباؤ کا تعلق
ایسٹروجن اور پروجیسٹیرون بھی ذہنی تناؤ کے ردعمل کا سبب بن سکتے ہیںجب آپ کو کسی ذہنی پریشانی یا جسمانی تکلیف کا خدشہ ہو تو جسم میں ایک ’فائٹ یا فلائیٹ‘ یعنی لڑنے یا بھاگ جانے کا رد عمل سامنے آتا ہے۔ اسے ’سٹریس رسپانس‘ کہتے ہیں۔
سٹریس رسپانس میں مرکزی کردار ’کورٹیسول ہارمون‘ کا ہوتا ہے۔ چوہوں میں موجود اس ہارمون کو ’کورٹیکوسٹیرون‘ یا کورٹ کہتے ہیں۔ یہ ایک میٹابولک ہارمون ہوتا ہے یعنی وہ ہارمونز جن کی اگر خون میں زیادتی ہو جائے تو چربی سے توانائی پیدا ہونے لگتی ہے۔
افزائش نسل کے ہارمونز اور سٹریس کے ہارمونز کا گہرا تعلق ہے۔
اس وجہ سے مانع حمل گولیاں اور دیگر طریقے جزبات پر اثر ڈالتے ہیں۔ اس سے توانائی پر بھی اثر پڑتا ہے جو کہ حمل کے دوران انتہائی اہم ہوتی ہے۔
اگر ایک خاتون ایسی ہارمونل ادویات لے تو اس کے ’سٹریس رسپانس‘ کو کیا ہو جاتا ہے؟
جو خواتین حمل روکنے کے طبی طریقے استعمال کرتی ہیں اور انھیں کوئی معمولی چھوٹی مشکل پیش آئے جیسے بازو پر ٹھنڈا پانی گر جائے یا سب کے سامنے تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہونا ہو، تو ان میں کورٹیسول ہارمون کا اخراج کم ہوتا ہے۔
ان کے مقابلے ان لوگوں میں کورٹیسول کا اخراج زیادہ ہوتا ہے جو حمل روکنے کے طریقوں کا استعمال نہیں کرتے۔
ڈپریشن اور حمل روکنے کی طریقے
برتھ کنٹرول گولیوں سے ڈپریشن کا خطرہ ہر شخص میں مختلف ہوتا ہے محققین نے یہی ردعمل چوہوں کی مختلف اقسام میں بھی پایا۔ جب چوہوں کو ان ہارمونز پر مبنی علاج دیا گیا تو زنانہ چوہوں میں سٹریس رسپانس میں کمی دیکھنے میں آئی۔
تو کیا ہارمونل ادویات سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں اس طرح کا رد عمل سامنے نہیں آتا۔ تاہم ہر شخص میں الگ ردعمل ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ سٹریس رسپانس کے کم یا زیادہ ہونے سے ڈپریشن کے کم یا زیادہ ہونے کا براہ راست تعلق نہیں ہے۔
تاہم سٹریس کا مزاج سے قریبی تعلق ہے۔ اور اگر ایک شخص مسلسل سٹریس کا شکار رہے تو اس میں ڈپریشن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
چونکہ ان ادویات سے سٹریس رسپانس میں تبدیلیاں آتی ہیں تو سٹریس سے پیدا ہونے والے ڈپریشن کے خطرے میں بھی بدلاؤ آتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو یہ ادویات ڈپریشن میں جانے سے بچاتی ہیں لیکن کچھ لوگوں میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھنے کا رسک ہوجاتا ہے۔
دس میں سے نو لوگ جو مانع حمل طریقے استعمال کرتے ہیں، انھیں مزاج میں افسردگی یا ڈپریشن کی علامات محسوس نہیں ہوتی جبکہ کئی لوگوں کو محسوس ہوگا کہ ان کا مزاج بہتر ہو گیا ہے۔
تاہم محققین فی الوقت یہ نہیں پتہ لگا سکے ہیں کہ کن لوگوں میں ان ادویات کے استعمال سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
انسان کی جنیات اور ماضی میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح کے عوامل مانع حمل ادویات کی وجہ سے مزاج پر بھی اثر کرتے ہیں۔
فی الوقت کون سی مانع حمل گولیاں یا دیگر طریقے کس کے لیے مفید ہیں اس کے لیے ٹرائل اینڈ ایرر یعنی استعمال کرو اور دیکھو کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔
طبی ماہرین یہ دیکھتے ہیں کہ مریض پر کس طرح کے منفی اثرات رونما ہو رہے ہیں۔ منفی اثرات کو قابو کرنے کے لیے اس کی مقدار کو بھی بدلا جا سکتا ہے یا یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہارمونز کے اخراج کا کون سا ذریعہ کس مریض کے لیے بہتر ہے۔
لیکن یہ ’پہلے پرکھو، پھر اپناؤ‘ کا عمل کافی لوگوں کے لیے دردِ سر بن جاتا ہے اور وہ مانع حمل ادویات کا استعمال چھوڑ دیتے ہیں۔
اگر یہ پتہ چل جائے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور مانع حمل طریقوں کے فوائد بہتر انداز میں لوگوں کو بتائے جائیں تو لوگ اپنی صحت کے لیے بہتر اور سمجھداری پر مبنی فیصلے لے سکیں گے۔