نان کسٹم پیڈ (این سی پی) کار سے مراد وہ گاڑیاں ہیں جن کے کوئی کاغذات نہیں ہوتے ہیں۔ یہ گاڑیاں حکومت پاکستان کے کسی بھی ادارے کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہوتیں اور انھیں رکھنے پر قانونی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اکثر جرائم اور دہشتگردی کے واقعات میں انھی گاڑیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

رواں سال جولائی کے وسط میں پشاور کے محکمۂ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو منشیات کی ایک بھاری کھیپ کی سمگلنگ کی اطلاع ملی۔ اس پر کارروائی کرتے ہوئے اہلکاروں نے ایک گاڑی کا تعاقب کیا مگر اس میں موجود ملزمان فرار ہو گئے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن تھانہ کے ایڈیشنل ایس ایچ او ڈاکٹر اذلان اسلم بتاتے ہیں کہ اس اطلاع پر مختلف مقامات پر ناکے لگائے گئے تھے جس کے بعد اہلکاراس گاڑی کو پکڑنے میں کامیاب رہے۔
مگر جب اہلکاروں نے اس گاڑی سے منشیات برآمد کرکے اسے قبضے میں لیا تو گاڑی کی جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ یہ گاڑی نان کسٹم پیڈ ہے۔ یعنی اس گاڑی کی رجسٹریشن سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں تھے اور اس کے انجن اور چیسیس نمبر سے ملزمان کا سراغ لگانا ناممکن تھا۔
حکام کے مطابق اکثر اوقات منشیات کی سمگلنگ اور دیگر جرائم میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ملزمان تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
صوبہ خیبر پختوخوا پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ ’ملک دشمن، جرائم پیشہ افراد، سمگلر سب نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا استعمال کر کے اپنے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں۔
’ان گاڑیوں کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے فرائض میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ملزمان کے لیے یہ بہت بڑی سہولت ہے۔‘
22 جولائی کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی لیفٹینٹ جنرل احمد شریف نے دہشتگردی کے واقعات میں تعلق پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں۔ اس سے کروڑوں کا، اربوں کا (غیر قانونی) کاروبار ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انھی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں دہشتگرد آپریٹ کرتے ہیں۔ جب کچھ جگہوں پر یہ عام ہو کہ گاڑی بغیر کاغذ کے چل سکتی ہے تو اس کے درمیان میں دہشتگرد بھی آپریٹ کریں گے۔‘
خیال رہے کہ شاہراہ قراقرم پر بشام کے مقام پر چینی انجینیئروں پر حملے کے بعد تحقیقات کے دوران نان کسٹم پیڈ گاڑی کے استعمال کا انکشاف ہوا تھا اور اسی طرح دہشتگردی کے دوسرے واقعات میں بھی ایسی گاڑیاں استعمال کیے جانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
این سی پی گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں اور پاکستان کے کن علاقوں میں ان کی اجازت ہے؟

ضلع خیبر کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر محمد خالد کا کہنا ہے کہ نان کسٹم پیڈ (این سی پی) گاڑیوں سے مراد وہ گاڑیاں ہیں جن کے کوئی کاغذات نہیں ہوتے ہیں۔
یہ گاڑیاں حکومت پاکستان کے کسی بھی ادارے کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہوتیں لہذا انھیں ملک کے اکثر علاقوں میں غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے اور اس پر قانونی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دو طرح کے ٹیکس ہیں۔ پاکستان کے اندر تیار ہونے والی ہر چیز پر ایکسائز ڈیوٹی لگتی ہے جبکہ بیرون ملک سے لائی جانے والی گاڑیوں سمیت ہر چیز پر کسٹم ڈیوٹی عائد کی جاتی ہے۔
محمد خالد مثال دیتے ہیں کہ اگر بیرون ملک سے لائی گئی گاڑی کی قیمت پانچ لاکھ ہے تو اس پر نو سے دس لاکھ روپے کسٹم ڈیوٹی لگتی ہے، یعنی پاکستان میں اس گاڑی کی قیمت 15 لاکھ روپے ہو جاتی ہے جو اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا پاکستان میں قانونی طریقے سے آنے والی گاڑی پر کسٹم ڈیوٹی ادا ہونے کے بعد ہی ان کی رجسٹریشن ممکن ہوتی ہے جس میں ان کے مالک کے ساتھ ساتھ انجن اور چیسیس نمبر کا ریکارڈ درج کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گاڑی پر رجسٹریشن نمبر لگتا ہے اور اس سارے عمل سے سرکار کے پاس گاڑیوں کا ریکارڈ اکٹھا ہوتا ہے۔ اگر کوئی کار جرائم میں ملوث پائی جاتی ہے تو اس طرح اس کے مالک تک پہنچا جاسکتا ہے۔
تاہم نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے مالکان تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد این سی پی کاروں کا استعمال کرتے ہیں۔
محمد خالد کا کہنا ہے کہ یہ گاڑیاں خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقوں، بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں استعمال ہوتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے وہاں کی عوام کو سہولت دینے کی خاطر مختلف ٹیکسوں میں چھوٹ دے رکھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقے ضم ہونے کے بعد بھی لوگوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ کی سہولت میسر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان علاقوں میں جب یہ گاڑیاں پہنچ جاتی ہیں تو وہاں کے لوگ ان کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ وہاں پر ٹیکس لاگو نہیں تو ان سے گاڑیوں پر بھی ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ گاڑیاں ان علاقوں میں چلتی رہتی ہیں اور ان پر اب بھی ان علاقوں میں کوئی پابندی نہیں ہے۔‘
ادھر ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ یہ گاڑیاں افغانستان اور ایران کی سرحد سے پاکستان پہنچتی ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کا بہت طویل بارڈر ہے اور بعض لوگ ان گاڑیوں کو قانونی راستوں کے بجائے دور دراز پہاڑی علاقوں اور جنگلات سے ہوتے ہوئے پاکستان لاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ گاڑیاں کھول کر بھی ان علاقوں میں پہنچائی جاتی ہیں جس میں ان گاڑیوں کے فریم اور انجن وغیرہ کو الگ کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کو خچروں اور اونٹوں پر لادا جاتا ہے اور پھر ان علاقوں میں پہنچ کر یہ دوبارہ اسمبل کی جاتی ہیں۔ پاکستان، افغانستان اور ایران بارڈر کے رہائشی دہائیوں سے یہ کام کرتے رہے ہیں۔ وہ ان دشوار گزار راستوں کو جاننے کے علاوہ گاڑیاں کھول کر دوبارہ بند کرنا کے کام کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ گاڑی ایک بار ان علاقوں میں پہنچ جاتی ہے تو ان گاڑیوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی پوچھ گچھ کے لیے نہیں روکتے۔ تاہم جب یہ گاڑیاں ان علاقوں سے باہر نکلتی ہیں تو اس وقت قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی کر سکتے ہیں۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی یہ گاڑیاں ’بڑے لوگوں کے پاس ہوتی ہیں۔‘
کیا ان گاڑیوں کا استعمال جرائم میں عام ہے؟
ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان گاڑیوں کی قیمتیں پاکستان کے دیگر علاقوں میں ملنے والی گاڑیوں کے مقابلے بہت کم ہوتی ہیں۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی اضلاع میں ان کا کاروبار جگہ جگہ ہو رہا ہوتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ ان علاقوں میں 2018 ماڈل کی ٹویوٹا فیلڈر 20 سے 25 لاکھ کی ہوتی ہے جبکہ اس سے پرانے ماڈل کی گاڑی دس سے پندرہ لاکھ روپے میں مل جاتی ہے۔ دیگر علاقوں کے مقابلے یہ قیمتیں نصف سے بھی کم ہیں۔
ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ اسی طرح غیر ریاستی سرگرمیوں میں بھی یہ گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ ’یہ بات تجربے میں ہے کہ سمگلر اور جرائم پیشہ افراد کو جب خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں آنے والے ہیں تو وہ بلا جھجھک گاڑی کو چھوڑ کر فرار ہوجانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔‘
ان کے مطابق دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی یہ گاڑیاں استعمال ہوئی ہیں جس کا مقصد آپریشن کو خفیہ رکھنا اور شناخت چھپانا ہے۔
ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ ’سندھ اور پنجاب میں بھی بااثر افراد انھیں رکھتے ہیں۔ یہ وہ بااثر ہوتے ہیں جن سے کوئی سوال جواب کرنے کی جرات نہیں کرسکتا ہے۔ یہ لوگ کوئی بھی رجسڑیشن نمبر حاصل کر کے اس گاڑی پر لگا کر اس کو استعمال کرتے ہیں۔‘
ابھی حال ہی میں ضلع خیبر پولیس نے منشیات اور اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ کی سمگلنگ کی کوشش کو ناکام بنایا تھا مگر گاڑی میں موجود ملزمان پولیس کو دیکھتے ہی فرار ہوگئے۔
اس گاڑی پرجسٹریشن نمبر جعلی لگا ہوا تھا۔ پولیس نے ضلع خیبر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور اس گاڑی کے چیسیس نمبر کی تصویر بھیجی۔
محمد خالد کہتے ہیں کہ ’خوش قسمتی سے یہ گاڑی ان دس ہزار گاڑیوں میں شامل تھی جن کی ہم نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر پروفائلنگ کی تھی۔ اس کا چیسیس نمبر ہمارے ڈیٹا بیس میں موجود تھا۔ اس ڈیٹا بیس کی مدد سے ہم نے معلومات پولیس کو فراہم کی جنھوں نے ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب سے یہ محسوس کیا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں مسائل پیدا کرتی ہیں تو وفاقی حکومت کی ہدایت پر ہر ضلع میں ان گاڑیوں کو ریکارڈ پر لانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
’ہم گاڑی کے مالک کے ساتھ مل کر نان کسٹم پیڈ گاڑی کا ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔ اس کا انجن نمبر، چیسیس نمبر کے علاوہ مالک کو شناختی کارڈ پر حاصل کردہ موبائل نمبر، شناختی نمبر کے ذریعے ریکارڈ پر لاتے ہیں۔‘
محمد خالد کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اس کو ضلع کے حساب سے ایک نمبر الاٹ کردیتے ہیں جیسے کہ ضلع خیبر کو کے ایچ وائے کے ساتھ نمبر دیا جاتا ہے۔ اس طرح باقی اضلاع میں بھی یہ کام جاری ہے۔ ’اس کام کے مکمل ہونے سے امید کرتے ہیں کہ ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘
نان کسٹم پیڈ گاڑی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
اگر کبھی آپ وادی سوات کے دور دراز علاقوں میں گئے ہوں یا وادی سوات کے شہر مینگورہہی میں ہوں تو وہاں پر آپ نے لازمی دیکھا ہوگا کہ مہنگا اور قیمتی ڈبل کیبن گاڑی، ڈالا یا ٹویوٹا کرولا کا نیا ماڈل پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چل رہا ہوتا ہے۔
مختلف سرکاری اداروں کی رائے کے مطابق اس وقت ایسی سب سے زیادہ نان پیڈ گاڑیاں مالاکنڈ ڈویژن میں ہیں۔
مالاکنڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر عبدالرحمیم کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ 2018 سے چل رہا ہے مگر یہ کہنا درست نہیں کہ یہ گاڑیاں ’مسائل اور جرائم کی وجہ ہیں‘ کیونکہ یہ گاڑیاں ’صرف بلوچستان کے سرحدی اضلاع اور خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقہ جات میں نہیں بلکہ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے لوگوں نے رکھی ہوئی ہیں۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی یہ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ ’اگر پکڑنا ہے تو پہلے ان کو کراچی، اسلام آباد، لاہور میں پکڑوں پھر مینگورہ اور میران شاہ میں پکڑنا۔‘
ریٹائرڈ کسٹم آفیسر محمد صدیق ضیا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ قانون میں ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں کہ ایک غیر قانونی گاڑی یعنی این سی پی کو کسی بھی طرح سے قانونی شکل دے دی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ نان کسٹم پیڈ گاڑی رکھنے پر کسی شخص کے خلاف مقدمہ درج ہوسکتا ہے اور کسٹم حکام کار کو ضبط کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق جن علاقوں میں یہ گاڑیاں رکھنے کی اجازت ہے، وہاں انھیں علاقائی طور پر رجسٹر کیا جا سکتا ہے مگر اس سے ان کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہوسکتی۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ ’گلگت بلتستان کے علاقے سکردو میں رجسڑ ایک ٹرک کو ایبٹ آباد میں پکڑا گیا۔ وہ گاڑی گلگت بلتستان میں رجسڑ تھی مگر سپریم کورٹ آف پاکستان تک وہ گاڑی نہیں چھوڑ سکی تھی۔ گلگت بلتستان میں حکومت نے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو رجسڑ کیا تھا تاکہ یہ وہیں کی حدود میں چل سکیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ’گاڑیاں پاکستان (کے دیگر علاقوں) کی حدود میں پکڑی گئیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی۔‘
کراچی میں کسٹم کے شعبے پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی نادر خان کے مطابق ایسا قانون تو موجود نہیں کہ پاکستان کی حدود میں پکڑی جانے والی گاڑی کو چھوڑ دیا جائے مگر جب کوئی گاڑی پکڑی جاتی ہے تو بعض اوقات کسٹم حکام یہ مہلت دیتے ہیں کہ اس پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کر کے اسے واپس حاصل کر لیں۔
نادر خان کے مطابق ایسے میں یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اس کار کے انجن اور چیسیس نمبر تبدیل نہ ہوئے ہوں۔
دوسری طرف کسٹم حکام اکثر ملک کے مختلف علاقوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی نیلامی کرتے ہیں جس کے بعد خریدار انھیں قانونی طور پر رجسٹر کرانے کے اہل ہو جاتے ہیں۔
نادر کہتے ہیں کہ ’اگر کسی گاڑی کا انجن اور چیسیس نمبر تبدیل کیا گیا ہو تو پھر اس گاڑی کی نیلامی نہیں ہوتی بلکہ گاڑی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے پیشہ ورانہ فرائض میں استعمال کر سکتے ہیں۔‘