کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے سوشل میڈیا کے معروف انفلوئینسر ساحل عدیم کے خلاف ہتک عزت کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ یہ وارنٹ کیس کے تفتیشی افسر وقار احمد کی جانب سے حتمی چارج شیٹ جمع کروانے کے بعد جاری ہوئے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) شیر محمد نے حکم دیا کہ ملزم کو فوری طور پر گرفتار کر کے 24 ستمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ساحل عدیم کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153 (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو بڑھاوا دینا)، 505 (1)(سی) (اُکسانے کا ارادہ)، اور 500 (ہتک عزت) شامل ہیں۔
یہ کیس اس وقت شروع ہوا جب 12 جولائی کو ایڈوکیٹ عبدالفتاح کی شکایت پر ساحل عدیم کے خلاف 'سندھی کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے' کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ شکایت میں کہا گیا کہ ساحل نے اپنی ایک ویڈیو میں سندھیوں کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے، جس سے نفرت انگیز جذبات بھڑکنے کا خدشہ پیدا ہوا۔
ساحل عدیم نے اس سے قبل 15 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے 20 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے پر 15 دن کی حفاظتی ضمانت حاصل کی تھی۔ تاہم، تفتیشی افسر نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں کراچی کی مجاز عدالت سے رجوع کرنے کا کہا تھا، مگر وہ تفتیش میں شامل نہیں ہوئے۔
اس کے علاوہ، پیپلز پارٹی کی قانون ساز ماروی فصیح نے بھی ایک ٹی وی شو کے دوران ساحل عدیم کے خلاف سندھ اسمبلی سیکرٹریٹ میں قرارداد جمع کرائی، جس میں خواتین کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز ریمارکس کا ذکر کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک پرانی ویڈیو میں، ساحل عدیم نے سندھی قوم کے بارے میں نفرت انگیز باتیں کیں، جس کے بعد صارفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'سندھی لوگ اپنی بیٹیوں کو وڈیروں کے حوالے کرتے ہیں' اور یہ بھی کہا کہ 'سندھی خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کے اعمال ہندوؤں سے بھی بدتر ہیں'۔
یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مختلف افراد نے ساحل عدیم کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے معروف اسکالر کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کی۔ یہ کیس ایک اہم مثال ہے کہ سوشل میڈیا پر الفاظ کی طاقت کس طرح قانونی معاملات میں تبدیل ہو سکتی ہے۔