تحقیق کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ ہفتے میں تین چھٹیاں بہتر صحت، ورک، لائف بیلنس اور مجموعی طور پر زندگی میں اطمینان کو بڑھاتی ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طویل ورکنگ آورز دماغ کی ساخت کو بدل سکتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہفتے میں تین چھٹیاں صحت کے لیے اچھی ہیں اور اس سے کام کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ہفتے میں پانچ دن کام کریں، ویک اینڈ کا لطف اٹھائیں اور پھر دوبارہ کام پر جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔۔۔ لیکن اگر آپ کو دو کے بجائے ہفتے میں تین چھٹیا٘ں مل جائیں تو؟
نیچر ہیومن بیہیوئیر نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ کام کے ہفتے کو چار دن کرنے سے ملازمین کی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور ان کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
بوسٹن کالج کے ریسرچرز نے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آئرلینڈ کی 141 کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پر کیے جانے والے ٹرائل میں چار عوامل کو ٹریک کیا۔ ان میں برن آوٹ، نوکری سے مطمئن ہونا، جسمانی اور ذہنی صحت کا جائزہ شامل ہے۔
ان کمپنیوں کے ملازمین کو ہفتے میں چار دن کام کرنے کی اجازت دی گئی۔
تحقیق کے مرکزی مصنف وین فین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے کارکنوں کی صحت میں بہت بہتری دیکھی۔‘
اُن کے بقول کمپنیوں نے پیداوار اور آمدن میں بھی اضافہ دیکھا۔ اب جبکہ ٹرائل ختم ہو چکا ہے، اس میں شامل افراد میں سے نوے فیصد نے ہفتے میں چار دن چھٹی کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
تحقیق کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ ہفتے میں تین چھٹیاں بہتر صحت، ورک، لائف بیلنس اور مجموعی طور پر زندگی میں اطمینان کو بڑھاتی ہیں۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ طویل گھنٹوں تک کام دماغ کی ساخت کو بدل سکتے ہیں۔
لہذا اگر صحت کے فوائد اتنے واضح ہیں تو ہمیں اس سے کون روک رہا ہے؟
زیادہ کام کرنے کا کلچر
تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ بہت سی جگہوں پر زیادہ کام کرنے کو ایک اعزاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔چین میں ’996‘ کلچر مشہور ہے جس میں ملازمین ہفتے میں چھ دن صبح نو سے رات نو بجے تک کام کرتے ہیں۔
انڈیا میں تیزی سے ترقی کرتے ٹیکنالوجی اور فنانس کے شعبوں میں ملازمین کام کو وقت سے بھی زیادہ گھنٹوں تک کام کرنا پڑتا ہے تاکہ بین الاقوامی ڈیمانڈ کو پورا کیا جا سکے۔
پروفیسر فین کہتے ہیں چین، انڈیا، امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنے کو اعزاز سمجھا جاتا ہے۔
جاپان میں مقررہ اوقات سے زیادہ کام کرنے پر اوور ٹائم بھی نہیں ملتا اور یہ چیز وہاں اتنی عام ہے کہ ’زیادہ کام سے موت‘کے لیے ’کروشی‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
جاپان میں لیبر مارکیٹ کے ماہر ہیروشی اونو کہتے ہیں کہ جاپان میں کام کو صرف کام نہیں بلکہ ایک سماجی رسم سمجھا جاتا ہے۔
اُن کے بقول ’لوگ جلدی دفاتر میں پہنچ جاتے ہیں اور دیر تک وہاں رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کام نہ بھی ہو تو بھی مارشل آرٹ کی طرح صرف دکھانے کے لیے لوگ دفاتر میں موجود رہتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جاپان میں مجموعی طور پر یہ کلچر ہے کہ ’اگر کوئی جمعے کو چھٹی کر لے تو باقی لوگ سوچتے ہیں کہ آج اس نے کام کیوں چھوڑ دیا۔‘
حیران کن طور پر خواتین زچگی کے لیے ملنے والی چھٹیاں کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ حالاںکہ جاپانی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
پروفیسر وین فین کے مطابق یہ ٹرائل کام کے حوالے سے لوگوں کی سوچ بدلنے میں مددگار ہو گا۔ یہ وہاں بھی کارگر ہو گا جہاں لوگ اوورٹائم کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
آئس لینڈ میں تقریباً 90 فیصد ملازمین کم گھنٹے کام کرتے ہیں جبکہ اُنھیں اپنا ورک ویک کم کرنے کا بھی حق ہے۔
جنوبی افریقہ، برازیل، فرانس، سپین، ڈومینیکن ریپبلک، بوٹسوانا سمیت متعدد ممالک میں اس حوالے سے ٹرائلز ہو چکے ہیں یا جاری ہیں۔
اس سال کے شروع میں ٹوکیو نے سرکاری ملازمین کے لیے چار دن کا ہفتہ شروع کیا تھا۔ دبئی نے حال ہی میں اپنی سرکاری افرادی قوت کے لیے موسم گرما میں ایک ایسا ہی اقدام شروع کیا ہے۔
جنوبی کوریا کی 67 کمپنیاں اکتوبر 2025 میں ساڑھے چار روز کے ورک ویک کے لیے ٹرائلز کریں گی۔
کام اور آرام میں توازن
’فور ڈے ویک گلوبل‘ کے چیف ایگزیکٹو کیرن لو کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے بعد سے بہت سے ملازمین یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کام کے اوقات کے معاملے پر اُن کی روٹین کی زندگی اور کام میں ہم آہنگی نہیں رہی ہے۔
اُن کے بقول اب آپ اس رجحان کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
ان کی کمپنی برازیل سے لے کر نمیبیا اور جرمنی تک مختلف کمپنیوں کو چار روزہ ورک ویک ماڈل کو جانچنے میں مدد دیتی ہیں۔
اس کی سب سے بڑی کامیابی کی کہانیوں میں سے ایک سٹی آف گولڈن، کولوراڈو میں پولیس کا محکمہ ہے جس میں 250 کا عملہ ہے۔
یہاں چار دن کا ہفتہ متعارف کرانے کے بعد سے اوور ٹائم کے اخراجات میں تقریباً 80 فیصد کمی آئی ہے اور استعفے آدھے رہ گئے ہیں۔
لو کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ ہنگامی حالات میں کام کرنے والے پولیس کے محکمے میں کام کر سکتا ہے تو باقی جگہوں پر بھی ایسا ہو سکتا ہے۔‘
اُن کے بقول ’جب ہم نے 2019 میں پہلا ٹرائل شروع کیا تو صرف چند ایک کمپنیاں دلچسپی رکھتی تھیں۔ اب یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔‘
لو کہتی ہیں کہ عام غلط فہمی یہ ہے کہ چار دن کا ہفتہ کرنے سے کام کرنے کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی ہے۔ حالاںکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ٹرائلز سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اس سے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
سنہ 2019 میں مائیکرو سافٹ جاپان نے ٹرائل کے طور پر چار روز کا ورک ویک رکھا جس کے نتیجے میں اُن کی سیل میں فی ملازم 40 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن اس کے باوجود کمپنی نے اس ماڈل کو مستقل طور پر برقرار رکھنے سے گریز کیا۔
پروفیسر فین کے مطابق چار روزہ ورک ویک کی وجہ سے کمپنیوں کی پیداوار میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلکہ کمپنیوں نے کم اہمیت والے ٹاسک کم کیے اور غیر ضروری میٹنگز کے بجائے ویڈیو اور فون کالز پر اکتفا کیا۔
لو کا کہنا ہے کہ ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ ملازمین کو اضافی چھٹی کی تلافی کے لیے چار ورکنگ ڈیز میں زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔
لو کا کہنا ہے کہ بڑی کمپنیوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے متعدد محکمے ہوتے ہیں جو مختلف ممالک اور ٹائم زونز میں کام کرتے ہیں۔
ٹیم کے لیے لائف لائن
کیپ ٹاؤن کی سٹیلن بوش یونیورسٹی میں ایک کونسلنگ سینٹر کے ڈائریکٹر چارل ڈیوڈز کے لیے، چار دن کا ہفتہ صرف کام کی جگہ کی تبدیلی نہیں تھی، یہ ایک لائف لائن تھی۔
ان کی ٹیم 30 ہزار سے زیادہ طلبہ کو ذہنی صحت کے حوالے سے مدد فراہم کرتی ہے۔ اُن کے بقول ورک ویک میں تبدیلیوں سے پہلے ملازمین کام کے بوجھ کی شکایت کرتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
چارل ڈیوڈز کہتے ہیں کہ اس سے پہلے غیر حاضریاں زیادہ تھیں، لوگ بیماری کی وجہ سے چھٹیاں کرتے تھے۔
جنوبی افریقہ کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں ذہنی امراض کی شکایات زیادہ ہیں۔ چارل کی ٹیم بھی زیادہ کیسز کے لوڈ اور وسائل کمی کی وجہ سے جذباتی طور پر دباؤ محسوس کرتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے کمپنی کی اعلی قیادت کے اعتراضات کے باوجود ہفتے میں تین دن چھٹیوں کا فیصلہ کیا۔
اُن کے بقول شروع میں وہ زیادہ پراُمید نہیں تھے، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس کے نتائج غیر معمولی تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ چار روزہ ورک ویک ٹرائل سے پہلے ایک برس کے دوران اُن کے پاس بیماری کے باعث چھٹی کی 51 درخواستیں آئی تھیں، لیکن چار روزہ ورک ویک کے بعد یہ کم ہو کر صرف چار رہ گئیں۔
اُن کے بقول وہ توقع کرتے تھے کہ لوگ ایک اضافی چھٹی ملنے کو پرائیویٹ پریکٹس کے لیے استعمال کریں گے، لیکن کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر ملازمین نے اپنے خاندان کے ساتھ گزارا، نیند پوری کی اور دیگر مشاغل میں شامل ہوئے۔
اُن کے بقول ایسا کرنے سے کمپنی کے ملازمین نے زیادہ توجہ سے طلبہ کے مسائل سنے اور اُن کے لیے ہمدردی کا جذبہ بڑھ گیا۔
لیکن یہ ہر جگہ نہیں چل سکتا
ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا ہر جگہ نہیں چل سکتا۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ملک کا صنعتی شعبہ کہاں کھڑا ہے اور وہ ترقی کی کس سٹیج پر ہے۔
لو کہتی ہیں کہ افریقہ میں بہت سے لوگ زراعت، کان کنی یا دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں۔ لہذِا وہ ورک ویک تبدیلیوں کے معاملے پر کسی کھاتے میں نہیں ہیں۔
اُن کے بقول ان شعبوں میں کام کرنے کے اوقات کے برعکس زیادہ منافع کمانے پر توجہ دی جاتی ہے۔
پروفیسر فین کے بقول اب اس اس معاملے پر بھی بحث ہو رہی ہے کیوں کہ تعمیرات، مینوفکچرنگ اور میزبانی کے شعبوں میں بھی اس حوالے سے پیش رفت ہو رہی ہے۔
نئی نسل تبدیلی لا رہی ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی نسل اس معاملے میں آگے بڑھ رہ ہے اور تنخواہ سے زیادہ ورک-لائف بیلنس کو اہمیت دے رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاملے میں سب سے بڑی تبدیلی نوجوان طبقہ لا سکتا ہے۔
سنہ 2025 میں کیے گئے عالمی سروے کے مطابق تنخواہ سے زیادہ ورک-لائف بیلنس کو زیادہ ترجیح دی جا رہی ہے۔
جنوبی کوریا میں بہت سے نوجوان ورکرز نے زیادہ تنخواہ سے زیادہ گھنٹے کام کرنے کو اہمیت دی۔
پروفیسر فین کے بقول ہم نوجوان نسل میں اس معاملے پر مزاحمت دیکھ رہے ہیں۔ وہ کام کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں اور زندگی کے حوالے سے اُن کا دیکھنے کا انداز مختلف ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی وبا کے بعد مشترکہ استعفوں کی تحریکوں اور چین میں اوور ورک کلچر کے خاتمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان طبقہ کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہے۔ آگے چل کر یہ تحریکیں ورک کلچر کو ایک نئی شکل دینے میں مدد دیں گی۔