اسرائیل سے جنگ کے بعد ایران عرب ممالک کا اعتماد دوبارہ کیسے جیت رہا ہے؟

ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد خلیجی عرب ممالک نے توقعات کے برعکس ایران سے تعلقات میں تسلسل اور استحکام کی پالیسی برقرار رکھی، حالانکہ ایران نے قطر میں العدید ایئر بیس پر حملہ کیا جو جنگ کا اہم موڑ تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ اور سعودی ولی عہد کی ملاقات
Getty Images

گذشتہ ماہ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد خلیجی عرب ممالک نے توقعات کے برعکس کوشش کی ہے کہ جنگ سے پہلے کی صورتحال اور حالات کو برقرار رکھا جائے اور اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔

یہ سب اس وقت ہوا جب ایران نے قطر میں العدید ایئر بیس پر حملہ کیا جو تقریباً دو ہفتوں پر محیط جنگ کا اختتامی نکتہ ثابت ہوا۔ مبصرین اس حملے کو بے مثال قرار دیتے ہیں، خاص طور پر اس تناظر میں کہ قطر خطے میں ایران کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔

خلیج فارس کے عرب ممالک نے فوری طور پر اس حملے کی مذمت کی تاہم ان کا یہ ردِ عمل جلد ہی خبروں کی شہہ سرخیوں سے غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ایسی رپورٹس نے لے لی جن میں ایران کے خلیج کے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات میں تسلسل اور مضبوطی کا اعادہ کیا گیا۔

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد خلیجی ممالک کی جانب سے دیے گئے سب سے نمایاں بیانات میں سے ایک میں متحدہ عرب امارات کے سفارتی مشیر انور قرقاش کا بیان تھا جو انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا۔

’خلیجی ریاستوں نے ایران کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کے خلاف ایک مضبوط اور مؤثر مؤقف اختیار کیا۔ لیکن ایران نے اپنے برادر ملک قطر کی خودمختاری کو نشانہ بنایا جس سے ہم سب متاثر ہوئے ہیں۔‘

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد ’تہران پر اب یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے خلیجی ہمسایہ ممالک کا اعتماد دوبارہ بحال کرے۔‘

بی بی سی مانیٹرنگ نے اس مضمون میں جنگ کے بعد ایران کے خلیج فارس کے اہم ترین ممالک کے ساتھ تعلقات کا ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔

سعودی عرب

ایران-اسرائیل جنگ اور العدید ایئر بیس پر حملے کے بعد سعودی عرب کا ردِ عمل یہ بتاتا ہے کہ ریاض تہران کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے، ایسے تعلقات جو بعض مبصرین کے مطابق جون میں جھڑپوں سے قبل حالیہ برسوں کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکے تھے۔

اس بات کا اظہار خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان مسلسل دوستانہ اور اعلیٰ سطحی روابط سے ظاہر ہورہا ہے جن میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان رواں ماہ آٹھ جولائی کو جدہ میں ہونے والی ملاقات بھی شامل ہے۔

اگرچہ مارچ 2023 میں بیجنگ میں ہونے والے ریاض اور تہران کے درمیان مفاہمتی معاہدے نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی تھی تاہم سعودی میڈیا اور حکام اس کے نفاذ کے حوالے سے اپنی رپورٹنگ اور تبصروں میں محتاط رہے جس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اگر سعودی مفادات میں تبدیلی آئی تو وہ اس معاہدے پر کاربند رہنے سے گریز کریں گے۔

تاہم ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں 2024 کے آخری سہہ ماہی سے لے کر 2025 تک تیزی سے بہتری آتی گئی، گو کہ یہ ایسا وقت تھا جب خطے میں ایران کا اثر و رسوخ اسرائیل کی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف کارروائیوں اور شام میں ایران کے حامی بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے باعث کمزور ہو چکا تھا۔

سعودی عرب نے نئی لبنانی قیادت کی حمایت کی ہے جس نے ایک جانب حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کو اپنی ترجیح بنایا وہیں ساتھ ہی شامی عبوری حکومت کے حکام کے ساتھ قریبی سیاسی اور اقتصادی تعلقات بھی قائم کیے ہیں۔

سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان کا اپریل میں ایران کا تاریخی دورہ اور ایرانی مسلح افواج کے سابق سربراہ محمد باقری اور آیت اللہ خامنہ ای سے ان کی ملاقات اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ سعودی عرب ایک کمزور ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

ایران اسرائیل جنگ کے آغاز میں سعودی حکام اور ملک کے بڑے میڈیا اداروں نے ایران کے بارے میں بہت گرم جوش مؤقف اختیار کیا۔

محمد بن سلمان نے مسعود پزشکیان سے بات چیت میں افسوس کا اظہار کیا اور 13 جون کو اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی۔

سعودی قیادت نے ایرانی زائرین کی زمینی راستے سے بحفاظت واپسی کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کا حکم بھی دیا۔

اگرچہ ریاض نے العدید بیس پر ایران کے حملے کی سخت مذمت کی اور سعودی حکام اور میڈیا نے استحکام اور مزاحمت کا مسلسل پیغام دیا لیکن پھر فوری طور پر ہی سعودی میڈیا نے جنگ بندی کے اعلان پر توجہ مرکوز کر دی۔

سعودی عرب اسرائیل
Getty Images

24 جون کو محمد بن سلمان اور مسعود پزشکیان کے درمیان فون کال کی جو رپورٹ جاری کی گئی اس میں کہیں العدید بیس پر حملے کا ذکر نہیں تھا۔

اس کے بعد آنے والے ہفتوں میں بھی میڈیا نے سعودی اور ایرانی حکام کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے جاری رابطوں کی رپورٹنگ کی جس کا خاتمہ بالآخر جدہ میں محمد بن سلمان کی میزبانی میں عباس عراقچی کے استقبال پر ہوا۔

سعودی میڈیا نے ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان ’برادرانہ‘ تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اس میں کہیں بھی ایران پر قطر پر حملے کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

سعودی میڈیا میں نشر ہونے والے تجزیوں میں بھی یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب خطے میں استحکام برقرار رکھنے کا خواہاں ہے وہیں ایران میں حکومت کی تبدیلی سے اجتناب بھی ان رپورٹس میں صاف عیاں ہوتا ہے۔

اس کی ایک مثال الشرق الاوسط اخبار، جو کہ سعودی شاہی خاندان سے منسلک سمجھا جاتا ہے، میں شائع ہونے والے ایک سخت اداریے میں ملتی ہے جس میں ایک لبنانی صحافی اور العربیہ کے سابق اینکر نے اسرائیل کی جانب سے آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کو ’پاگل پن‘ قرار دیا۔

قطر

23 جون کو ایران کے حملے کے بعد دوحہ کے لیے ایک مشکل صورتِ حال تھی تاہم قطر اور تہران نے فوری طور پر کشیدگی کم کرنے کی خواہش کا اعادہ کیا اور یہ اشارہ بھی دیا کہ ان کے تعلقات بدستور قائم ہیں۔

قطر کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس حملے نے ایران کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر‘ ڈالا ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے امید ظاہر کی کہ ایران کے ساتھ تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے۔

یاد رہے کہ دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ ایران کے تعلقات کے برعکس تہران اور دوحہ کے تعلقات اسلامی جمہوریہ کے 1979 میں قیام کے بعد کبھی بھی ٹوٹ پھوٹ یا تعطل کا شکار نہیں ہوئے۔

اس حملے کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے ٹیلیفون پر بات چیت کی تاکہ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو پہنچنے والے نقصان میں کمی لائی جا سکے۔

ایرانی صدر اور وزیرِ خارجہ نے بھی جہاں قطرکے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا وہیں میڈیا کے ذریعے اس میزائل حملے سے دوطرفہ اور علاقائی تعلقات کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کو روکنے کی کوشش بھی کی۔

ایران کے سفیر نے 30 جون کو قطر کے چینل العربی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ’علاقائی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ہم آہنگی اور سمجھ بوجھ کی ایک شاندار مثال پیش کرتے رہے ہیں۔‘

قطری میڈیا نے ایران کے العدید بیس پر حملے کی تفصیل سے کوریج کی اور کئی دنوں تک اس کے نتائج اور عرب ممالک و عالمی برادری کی جانب سے ملنے والے یکجہتی اور ہمدردی کے پیغامات پر بحث کی۔

میڈیا میں ایران پر اسرائیلی حملوں کے مقاصد کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

نقشے
BBC

خبر رساں ادارے الجزیرہ کی ویب سائٹ پر موجود تجزیہ کاروں نے کہا کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کا ہدف الٹا اثر دکھاتا ہے کیونکہ ایرانی فوجی کمانڈروں کے قتل نے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے بجائے عوامی رائے کو حکومت کی حمایت میں متحد کر دیا۔

ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ اسرائیل کا شدید حملہ ایران کو متحد کرنے کا سبب بنا اور حزب اختلاف کی سیاسی تبدیلی کے مطالبے ختم ہو کر ’ملک کے دفاع‘ کے نعروں میں تبدیل ہو گئے۔

الجزیرہ کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا کہ ’اگر ایرانی حکومت گر گئی تو ممکنہ طور پر خانہ جنگی اور تباہ کن عدم استحکام ایران کی سرحدوں سے باہر تک پھیل سکتا ہے۔‘

اس رپورٹ میں زور دیا گیا کہ ’ایران میں حکومت کی تبدیلی ایک غیر حقیقی خیال ہے کیونکہ ایرانی فوج کا ڈھانچہ بغاوت کے خلاف مزاحمت کے لیے بنایا گیا ہے۔‘

متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات ان چند عرب ممالک میں شامل ہے جن کے اسرائیل اور ایران دونوں کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اور یہی بات ابوظہبی کے لیے مشکل صورت کا سبب بنی کہ وہ کس ایک فریق کا ساتھ دے۔ یہی وجہ ہے کہ یو اے ای کو ’پہلے امن‘ کی خارجہ پالیسی پر کاربند رہنا پڑا۔

سرکاری سطح پر یو اے ای نے ایران پر اسرائیل کے حملے اور اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی شدید مذمت کی اور محمد بن زیاد النہیان نے اپنے ایرانی ہم منصب مسعود پزشکیان سے ٹیلیفونک گفتگو میں ایران اور اس کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

یو اے ای نے قطر میں قائم العدید ایئربیس پر ایران کے میزائل حملے کی بھی مذمت کی۔ یہ حملہ امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے ردِعمل کے طور پر کیا گیا تھا۔

تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون اور امن پسندی کی اس زبان کے پیچھے ایک زیادہ عملی مقصد چھپا ہوا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان آ جانے کے بعد یو اے ای نے بحران کو قابو میں رکھنے کے لیے پس پردہ اپنی کوششیں تیز کر دیں تاکہ خطے میں کشیدگی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور ایران کے کسی شدید ردِعمل سے بچا جا سکے۔

میزائل حملوں کے دوران جغرافیائی طور پر ایران سے قرب، جوہری آلودگی کے خطرے اور جنگ کے خطے کے استحکام پر اثرات کے خدشے نے ابوظہبی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ جنگ سے پہلے کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے کوشش جاری رکھے۔

ابوظہبی نے نہ تو تہران میں حکومت کی تبدیلی کی حمایت کا کوئی اشارہ دیا اور نہ ہی اس نے امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیلی علاقائی بالادستی کی طرف اپنے کسی جھکاؤ کو ظاہر کیا۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ یو اے ای خطے میں طاقت کا توازن قائم رکھنے اور دونوں فریقوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔

یو اے ای نے تاریخی ابراہمی معاہدوں کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ایران
Getty Images

یاد رہے کہ 'ابراہم ایکارڈ' یعنی حضرت ابراہیم کے نام پر ہونے والے معاہدے میں چار عرب ممالک شامل ہیں۔ یہ معاہدہ امریکہ کی ثالثی میں 2020 میں طے پایا تھا جس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔ تاہم غزہ کی جنگ اور اب ایران اسرائیل جنگ کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی حالیہ تبدیلیاں ایسے معاہدوں کے امکانات اور مستقبل پر شدید اثر ڈالیں گی۔

ابوظہبی کے لیے ایران کے ساتھ خوشگوار ہمسائیگی کی پالیسی کو برقرار رکھنا اہم ہے کیونکہ یہ اس کے اقتصادی استحکام اور بحیرہ احمر میں مفادات کے لیے ناگزیر ہے۔

ابوظہبی اور تہران کے درمیان تعلقات میں جو بہتری 2021 میں شروع ہوئی تھی، اس میں مارچ 2023 میں چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے بعد مزید استحکام آیا۔

ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری نے ابوظہبی کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ریاض کے ساتھ خفیہ مسابقت میں خود کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر متعارف کروا سکے۔

یو اے ای کے میڈیا نے مسلسل جنگ کی خبریں شائع کیں اور ساتھ ہی ساتھ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے یو اے ای کے ثالثی کردار کو بھی اجاگر کیا۔

کویت

میڈیا رپورٹس کے مطابق کویت بھی امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی کرنے والے دیگر ممالک کی طرح ایران اور اسرائیل کے درمیان فائرنگ کے تبادلے سے شدید فکرمند تھا۔

کویت میں کئی امریکی فوجی اڈے قائم ہیں جن میں کیمپ عریفجان، کیمپ دوحہ، اور علی السالم ایئر بیس شامل ہیں۔

تاہم کویت نے بھی خطے کے دیگر ممالک کی طرح ایران پر اسرائیلی حملوں کی فوری طور پر مذمت کی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کویت آج بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر سخت تنقید کرتا رہا ہے جبکہ بحرین اور متحدہ عرب امارات جیسے دیگر ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی معاہدوں پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔

کویت اور ایران کے تعلقات حالیہ برسوں میں دیگر خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں نسبتاً مضبوط رہے یہاں تک کہ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے پا گیا۔

تاہم ایران اور کویت کے درمیان اصل تنازع آرش گیس فیلڈ پر ہے۔

ایران نے 2022 میں سعودی عرب اور کویت کے درمیان گیس فیلڈ کی ترقی کے لیے کیے گئے معاہدے پر اعتراض کیا اور زور دیا کہ اس کا بھی اس فیلڈ میں حصہ ہے اس لیے اس منصوبے میں اسے بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا۔

دونوں کے درمیان یہ تنازع تاحال برقرار ہے خاص طور پر اس لیے کہ سعودی عرب اور کویت اب بھی اس فیلڈ کو ترقی دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

اسرائیلی پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد ہونے والا نقصان
Getty Images
اسرائیلی پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد ہونے والا نقصان: فائل فوٹو

کویتی میڈیا نے جنگ کے حالات پر کڑی نظر رکھی اور ایران کے جغرافیائی طور پر قریب ہونے کے باعث اس کے لیے یہ خدشات بڑھ گئے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے اثرات کویت پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

بعض نشریاتی اداروں نے خلیج فارس کے خطے کے موقف کی عکاسی کرتے ہوئے ردعمل پر مبنی رپورٹس شائع کیں جیسے کہ روزنامہ الجریدہ، جس نے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا ’ایران کے جوہری پروگرام پر امریکی حملے پر ردِعمل۔‘

الجریدہ کا شمار ان چند اخبارات میں ہوتا ہے جو گاہے بگاہے ایران سے متعلق خصوصی رپورٹس شائع کرتے ہیں جن میں عموماً حکومت، مذہبی اداروں یا پاسدارانِ انقلاب میں موجود گمنام ذرائع کے حوالے سے خبریں بھی دی جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر چار جولائی کی ایک رپورٹ میں ایک معتبر ذرائع کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کے صاحبزادے مجتبیٰ خامنہ ای اندرونی ووٹنگ کی بنیاد پر قیادت حاصل کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

اگرچہ الجریدہ کی تمام خصوصی رپورٹس قابلِ تصدیق یا درست نہیں ہوتیں لیکن ایران میں اس اخبار کے متنوع ذرائع اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس اخبار کے ایران کے اندر گہرے روابط موجود ہیں۔

عمان

عمان نے خطے میں شروع سے ہی ایک غیر جانب دار کردار برقرار رکھا ہے اور اسی بنا پر اس نے اپنی خارجہ پالیسی کو مکالمے، عدم مداخلت اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل پر مبنی رکھا ہے۔

مسقط نے اس سال تہران اور واشنگٹن کے درمیان کئی مرحلوں کی بات چیت کی میزبانی کی۔ عمان کی ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی تاریخ 2013 سے دیکھی جا سکتی ہے جس وقت مسقط نے بند دروازوں کے پیچھے ایسے مذاکرات کی میزبانی کی تھی جسے دہائیوں بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ سمجھا گیا تھا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اگرچہ جوہری مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے تھے اس کے باوجود 12 روزہ جنگ کے دوران عمان نے پس پردہ اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

عمان کے میڈیا نے بھی خطے کے دیگر ممالک کی طرح جنگ کے واقعات کو تفصیل سے نشر کیا۔

عمان اپنے متوازن رویے اور فریقین کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے۔

دیگر ممالک کی طرح عمانی میڈیا نے بھی اس صورتِ حال کی بھرپور کوریج کی۔ عرب میڈیا نے بارہا عمان کے ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کے کردار کو سراہا اور اس کی طرف سے اعتماد اور باہمی احترام کا ماحول پیدا کرنے کی صلاحیت کو مختلف مواقع پر پزیرائی ملی جو اس کے دونوں فریقوں سے اچھے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔

اگرچہ عمان نے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے ہیں تاہم اس نے قطر میں العدید بیس پر تہران کے حملے کی مذمت کی اور اسے دوحہ کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔

اسی بیان میں عمان کی وزارتِ خارجہ نے کشیدگی میں اضافے کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا جس کے نتیجے میں ایران نے ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے حملے اسی سابقہ کشیدگی کا نتیجہ ہیں۔

امریکہ کے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے 18 جون کو عمان کی ریڈیو ویب سائٹ الوصال نے تجزیہ کاروں کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں کہا گیا کہ عمان اور خلیج کے دیگر ممالک امریکہ کو ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اگرچہ عمان نے قطر پر ایران کے میزائل حملے کی سرکاری طور پر مذمت کی تاہم عمانی میڈیا میں شائع ہونے والے بعض مضامین میں ایران کی جارحیت کو روکنے کی صلاحیت کو سراہا گیا اور اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں پر مسلسل تنقید کی گئی۔

ایسے ہی ایک مضمون میں امریکہ اسرائیل ایران تنازع کو تہران کے لیے عزت و وقار کی جنگ کا نام دیا گیا۔

توقع کی جا رہی ہے کہ عمان نہ صرف ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا کردار جاری رکھے گا اور ساتھ ہی خلیج فارس کے دیگر ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کا موقف بھی برقرار رکھے گا۔

بحرین

یہ حملے ایک ایسے نہایت نازک موقع پر ہوئے جب بحرین اور ایران کے درمیان ایک دہائی سے زائد عرصے کے کشیدہ تعلقات کے بعد سفارتی تعلقات کی بحالی کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔

26 اپریل کو بحرین کی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے درکار قانونی فریم ورک کو کم سے کم وقت میں مکمل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ جنوری 2016 میں منامہ نے تہران اور مشہد میں سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کے خلاف احتجاجاً ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

بحرین نے بارہا ایران پر 2011 کی اس عوامی احتجاجی تحریک کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے جس کی قیادت شیعہ اکثریتی عوام نے کی تھی اور جس کا مقصد ملک پر حکمرانی کرنے والے سنی شاہی خاندان کا تختہ الٹنا بتایا جاتا ہے۔

24 اور 25 جون کو قطر میں قائم ایک ایئربیس پر ایران کے حملے کی خبر بحرینی اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنی رہی۔ ان اخبارات نے بحرین، دیگر عرب ممالک اور عالمی برادری کی جانب سے ان حملوں کی مذمت پر مبنی بیانات کی مکمل صفحات پر کوریج کی۔

بحرینی اخبارات نے ’خلیج فارس کے ممالک کی مشترکہ تقدیر‘ کے موضوع پر اداریے بھی شائع کیے اور اپنے تبصروں میں العدید بیس پر حملہ کرنے کے اقدام پر ایران کی مذمت کی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts