ہندوستانی بزنس مین کندن لعل نے یورپ کے تاریک ترین دور میں اپنے ملک ایک کاروبار کھڑا کیا تاکہ یہودیوں کو ملازمتیں دی جا سکیں اور انھیں نازیوں سے بچایا جا سکے۔
کندن لعل (دائیں) کی 1928 میں برلن چڑیا گھر میں لی گئی ایک تصویر۔’میں تمھیں ایک راز کی بات بتاتی ہوں۔ تمہارے نانا نے یہودی خاندانوں کو نازیوں سے بچنے میں مدد دی تھی۔‘
صرف ایک جملے نے وِنے گپتا کو ایک ایسے سفر پر دھکیل دیا تھا جس کا راستہ ان کے نانا کے ماضی سے جا ملتا تھا۔ اس کے بعد جو حقائق انھوں نے دریافت کیے وہ کسی بھی دیومالائی داستان سے زیادہ دلچسپ تھے: کہ کیسے ایک ہندوستانی بزنس مین نے یورپ کے تاریک ترین دور میں اجنبیوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔
وہ صرف ہمدردی کا جذبہ ہی نہیں تھی بلکہ لوجسٹکس کا بھی معاملہ تھا، ایک خطرہ تھا اور عزم و ہمت کا مظاہرہ تھا۔
اپنے ملک انڈیا میں کندن لعل نے ایک کاروبار کھڑا کیا تاکہ یہودیوں کو ملازمتیں دی جا سکیں اور ان کے گھر بھی بنائے۔ لیکن جیسے ہی دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی برطانیہ نے انھیں ’بیگانے دشمن‘ قرار دے کر حراست میں لے لیا۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
کندن لعل کی زندگی کسی کہانی کی طرح معلوم ہوتی ہے: لدھیانہ سے تعلق رکھنے والا غریب لڑکا جس کی 13 برس کی عمر میں شادی ہوئی اورجس نے لکڑی، نمک، لیبارٹری کے آلات سے لے کر بیل گاڑی کے پہیے تک ہر چیز بیچی۔ اس نے کپڑے اور ماچس کی فیکٹریاں بھی چلائیں۔
کندن لعل نے لاہور میں اپنی کلاس میں ٹاپ کیا تھا اور پھر 22 برس کی عمر میں نو آبادیاتی سول سروس کا حصہ بنے لیکن بعد میں آزادی کی تحریک اور فیکٹریاں بنانے کے جنون میں استعفیٰ دے دیا۔
انھوں نے انڈیا کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو سے ہاتھ بھی ملایا اور ان کی ملاقات یورپ تک کشتی کے ایک سفر میں اداکارہ دیویکا رانی سے بھی ہوئی۔
ونے گپتا نے اپنے خاندان کی یادداشتوں کے مجموعے ’اِن آ ریسکیو اِن ویانا‘ میں غیر ملکی سرزمین پر اپنے نانا کے غیرمعمولی ریسکیو مشن سے پردہ ہٹایا ہے۔ یہ کتاب خاندانی خطوط، نازیوں کے ہاتھوں بچ جانے والے افراد ور تاریخی ریکارڈز کے ذریعے مرتب کی گئی ہے۔
سنہ 1938 میں آسٹریا پر ہٹلر کے قبضے کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ایسے میں پنجاب کے شہر لُدھیانہ سے تعلق رکھنے والے اور مشین ٹول بنانے والے کندن لعل یہودی پیشہ ور ملازمین کو خاموشی سے انڈیا کے ویزے جاری کر رہے تھے تاکہ ان کی جانیں بچائی جا سکیں۔
انھوں نے ان یہودیوں اور ان کے خاندانوں کو ملازمتیں فراہم کیں اور انھیں گھر تعمیر کر کے دیے۔
کندن لعل نے پانچ خاندانوں کو ریسکیو کیا تھا۔
30 سالہ یہودی وکیل فرٹز ویس ایک ہسپتال میں بیماری کا بہانہ بنا کر چھپے ہوئے تھے۔ کندن لعل بھی اسی ہسپتال میں کسی بیماری کا علاج کروا رہے تھے۔
جب نازیوں نے ویس کو ان کے گھر کے باہر کی سڑکیں صاف کرنے پر مجبور کیا تو کندن لعل نے انھیں خیالی ’کندن ایجنسیز‘ میں ملازمت کی پیشکش کر دی، انھیں ویزہ بھی دلوایا۔
کندن لعل (بائیں جانب آخر میں بیٹھے ہوئے) الفریڈ وکسلر (بائیں جانب آخر میں کھڑے ہوئے)، سیگفرائیڈ شافرنک (بائیں سے تیسرے نمبر پر کھڑے) اور الفریڈ شافرنک (بائیں سے چوتھے نمبر پر کھڑے)الفریڈ وکسلر ایک ماہر لکڑی کے کاریگر تھے اور ان کی ملاقات کندن لعل سے اس وقت ہوئی جب وہ اپنی حاملہ اہلیہ کے کچھ ٹیسٹ کروانے ہسپتال آئے تھے۔ الفریڈ کو نہ صرف فرنیچر کا کاروبار کروا کر دینے کا وعدہ کیا بلکہ ان کے خاندان کا ویزہ بھی سپانسر کیا۔ یہ ان یہودی خاندانوں میں سے ایک تھا جو جنوری 1938 سے فروری 1939 کے دوران ہندوستان آیا تھا۔
ہنس لوش ایک ٹیکسٹائل ٹیکنیشن تھے جنھوں نے ایک آسٹرین اخبار میں ماہر کاریگروں کی مانگ کے حوالے سے ایک اشتہار پڑھا جو کہ کندن لعل نے دیا تھا۔ انھیں لدھیانہ کی خیالی کمپنی ’کندن کلاتھ ملز‘ میں مینیجر کی پوسٹ آفر کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ رہنے کی جگہ، منافع میں حصہ اور انڈیا تک محفوظ راستہ بھی دیا گیا۔
انھوں نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
الفریڈ شافرنک ایک پلائی ووڈ کی فیکٹری کے مالک تھے جہاں 50 ملازمین کام کرتے تھے۔ انھوں نے کندن لعل کو اپنی خدمات پیش کیں اور انھیں انڈیا میں ایک پلائی وڈ کی فیکٹری بنانے کا کام سونپ دیا گیا۔ اس کی وجہ سے ان کا تمام خاندان اور مکینک بھائی سگفرائیڈ نازیوں کے مزید ظلم سے محفوظ رہے۔
سگمنڈ ریٹر مشین ٹولز بنانے والے ایک کاروباری شخص تھے اور ان افراد میں شامل تھے جو کندن لعل کے رابطے میں آئے۔ ان کا کاروبار نازی دور حکمرانی میں تباہ ہو چکا تھا اور اب کندن لعل ان کی انڈیا منتقلی کے انتظامات کر رہے تھے۔
یہ کہانی ویانا کے ایک ہسپتال کے بیڈ سے شروع ہوئی۔
ذیابیطس اور بواسیر کے مرض سے لڑتے ہوئے اُس وقت 45 سالہ کندن لعل نے نئے علاج کی تلاش کی اور یوں انھیں ویانا میں ایک ماہرِ طب کے بارے میں معلومات ملیں۔
1938 میں وہاں سرجری کے بعد صحت یابی کے دوران ان کی ملاقات لوسی اور الفریڈ وکسلر سے ہوئی۔ یہ نوجوان جوڑا اپنے پہلے بچےکی آمد کا منتظر تھا۔ ان سے کندن لال کو یہ معلوم ہوا کہ یہودیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد نے ان کی زندگیوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
اگلے چند ماہ کے دوران وہ دیگر افراد سے بھی ملے۔ اس کامیابی سے حوصلہ پا کر کندن لال نے اخبارات میں اشتہار دیے جس میں ہنر مند افراد کوانڈیا منتقل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔
اس پیشکش پر آمادہ ہونے والوں میں وکسلر، لوش، شافرنک اور ریٹر بھی شامل تھے۔ کندن لعل نے ان سب کو ملازمت کی پیشکش کی، مالی ضمانتیں فراہم کیں اور ہندوستانی ویزا حاصل کرنے میں مدد دی۔
گپتا لکھتے ہیں کہ ’کندن لعل کی ان خاندانوں کے لیے کی جانے والی اس پیچیدہ منصوبہ بندی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ اس قدر خاموش طبع تھے کہ انھوں نے آخر تک محض ’ٹیکنالوجی کی انڈیا منتقلی‘ کا تاثر قائم رکھا۔‘
ان کے مطابق ’انھوں نے نہ تو کسی انڈین اور نہ ہی کسی برطانوی افسر سے اپنے ارادوں یا منصوبے کا ذکر کیا۔ ان کے اہلِ خانہ کو بھی ان کے منصوبے کا اس وقت پتہ چلا جب وہ کئی ماہ بعد گھر واپس لوٹے۔‘
کندن لعل کی جانب سے بلائے گئے افراد میں سے سب سے پہلے لوش اکتوبر 1938 لدھیانہ پہنچے۔
انھیں کندن لعل کے گھر خوش آمدید کہا گیا تاہم گپتا کے مطابق اُس خاموش سے قصبے میں انھیں سکون نہ ملا۔ وہاں نہ کوئی یہودی برادری تھی نہ ثقافتی سرگرمیاں، اور نہ ہی کپڑے کے فیکٹری اچھی حالت میں تھی۔
چند ہی ہفتوں میں لوش نے بمبئی (ممبئی) کا رخ کر لیا اور کام کے ناقص حالات اور منافع کی کم امید کو روانگی کی وجہ قرار دیا تاہم وہ کبھی واپس نہ لوٹے۔
وائس کا قیام اس سے بھی کم رہا یعنی محض دو ماہ سے بھی کم۔ کندن ایجنسیز کے نام سے جو کمپنی اس مقصدکے لیے بنائی گئی تھی وہ کبھی فعال نہ ہو سکی۔ وہ جلد ہی بمبئی منتقل ہو کر فرش بنانے کے کام میں لگ گئے اور 1947میں انگلینڈ جا بسے۔
اگرچہ وہ سب چلے گئے تاہم کندن لال نے کبھی اس بات کا برا نہ مانا۔
گپتا لکھتے ہیں، ’میری پھوپھی نے مجھے بتایا کہ اس کے برعکس، کندن لعل کو شرمندگی تھی کہ وہ ویانا جیسے ماحول کے مطابق کوئی طرزِ زندگی یا سماجی ماحول فراہم نہ کر سکے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تووہدونوں شاید لدھیانہ میں ہی رہتے۔‘
1940 تک تمام جرمن شہریوں کو چاہے وہ یہودی تھے یا نہیں، حراستی کیمپوں میں جانے کا حکم دیا گیا۔لیکن تمام کہانیوں کا اختتام ایسا نہیں ہوا۔
الفریڈ اور لوسی ویکسلر نے اپنے نومولود بچے کے ہمراہ بذریعہ سمندر، ریل اور سڑک ایک طویل سفر طے کر کے بالآخر لدھیانہ پہنچے۔
وہ ایک کشادہ گھر میں منتقل ہو گئے جو کندن لعل نے ان کے لیے تعمیر کیا تھا۔ یہ شافرنک کے گھر کے برابر میں تھا۔
الفریڈ نے جلد ہی ایک فرنیچر کی ورکشاپ قائم کر لی جہاں وہ برمیز ساگوان کی لکڑی اور سکھ مزدوروں کی مدد سے دلکش ڈائننگ سیٹ بناتے۔ ان میں سے ایک آج بھی مصنف کے خاندان کے پاس ہے۔
مارچ 1939 میں الفریڈ شافرنک، ان کا بھائی سگفرائیڈ اپنے خاندانوں کے ساتھ آسٹریا سے پہنچے۔
انھوں نے اپنے گھروں کے عقب میں انڈیا کی ابتدائی پلائی ووڈ فیکٹریوں میں سے ایک کی بنیاد رکھی۔
حوصلے اور مشقت سے کام لیتے ہوئے الفریڈ نے غیر تربیت یافتہ کارکنوں کی مدد سے کچھ ایسا بنانے کی کوشش کی جو ہمیشہ قائم رہے۔
گپتا لکھتے ہیں کہ کام بہت محنت طلب تھا اور انھیں پنجاب کی گرمی کی عادت نہیں تھی۔ ساتھ ہی ان لوگوں کا اکیلا پن بھی واضح تھا خاص طور پر ان کی خواتین کے لیے جن کی زندگی محض گھریلو کام کاج کے گرد گھوم رہی تھی۔
جیسے جیسے دن مہینوں میں تبدیل ہوئے، بوریت نے شروع شروع میں محسوس ہونے والی راحت کی جگہ لینی شروع کر دی۔
مرد زیادہ دیر تک کام کرتے جبکہ خواتین مقامی زبان نہ جاننے اور اکیلے پن میں گھر کے کام کاج تک محدود رہ گئی تھیں۔
ستمبر 1939 میں ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔
اس کے کچھ روز بعد برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کو بھی اس تنازعے میں گھسیٹ لیا۔ 25 لاکھ ہندوستانیوں کو اس جنگ میں حصہ لینا پڑا جن میں سے 87 ہزار کبھی واپس نہیں لوٹے۔
لدھیانہ میں بھی جلد ہی جنگ کے اثرات دکھنا شروع ہو گئے۔
کندن لعل کی بیٹی پریم لتا لدھیانہ میں ایلکس وکسلر کو گود میں لیے ہوئے۔ 1940 تک تمام جرمن شہریوں کو چاہے وہ یہودی تھے یا نہیں، حراستی کیمپوں میں بھیجنے کا حکم دیا گیا۔
ویکسلر اور شافرنک خاندانوں کو جبری طور پر پونا (پونے) کے قریب پرندھر حراستی کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ وہاں انھیں حوالات میں رکھا گیا جہاں مناسب سہولیات میسر نہیں تھیں۔ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، ان کا قصور محض یہ تھا کہ ان کے پاس غلط پاسپورٹ تھے۔
بالآخر انھیں کہا گیا کہ ان کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے اگر وہ اپنے لیے اجرتی کام ڈھونڈ سکیں۔
الفریڈ اور سگفرائیڈ بنگلور میں پلائی ووڈ کی ایک فیکٹری میں کام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئے اور اپنی زندگی ایک بار پھر ابتدا سے شروع کی۔
پرندھر کیمپ کو دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے تقریباً ایک سال بعد 1946 میں بند کر دیا گیا۔
1948 میں الفریڈ وکسلر کے کزن نے ان کے خاندان کے لیے امریکہ کے پناہ گزینوں کے ویزے سپانسر کیے۔ اس ہی سال اکتوبر میں وہ ہندوستان کبھی نہ لوٹنے کے لیے کراچی چلے گئے۔ شافرنک بنگلور میں کامیابی سے پلائی ووڈ کا کاروبار چلانے کے بعد 1947 میں آسٹریا منتقل ہو گئے۔
اپنی کتاب کے لیے تحقیق کے دوران گپتا کی ملاقات الفریڈ کے بیٹے ایلکس وکسلر سے ہوئی۔ الفریڈ نے برمیز ساگوان کی لکڑی کی وہ میز بنائی تھی جو کندن لعل نے اپنے دفتر میں رکھی ہوئی تھی۔ الفریڈ کی وفات 1973 میں ہوئی۔
گپتا لکھتے ہیں کہ دس برس کی عمر سے امریکہ میں رہنے اور 80 سال کے ہو جانے کے باوجود آج بھی ایلکس ہندوستان میں گزاری اپنی زندگی کو یاد کرتے ہیں۔ وہ انڈین ریستورانوں میں کھانے کھاتے ہیں، انڈین شہریوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور انھیں اردو کے بارے میں اپنی معلومات سے حیران کرتے ہیں۔
دوسری جانب لدھیانہ میں، کندن لعل نے گھر پر اپنی بیٹیوں کے لیے ایک سکول کھولا جو جلد ہی پنجاب کے قدیم ترین سکولوں میں سے ایک بن گیا۔ یہ سکول آج بھی چل رہا ہے جہاں 900 طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔ کندن لعل کی بیوی سرسوتی ہر چیز سے دور ہونے لگیں۔ وہ ڈپریشن سے لڑ رہی تھیں۔
کندن لعل اور سرسوتی کے پانچ بچے تھے جن میں چار بیٹیاں شامل تھیں۔ سرسوتی کی 1965 میں چھت سے گرنے سے موت واقع ہوئی۔ انھوں نے اپنے آخری سال خاموشی کے ساتھ گزارے۔ وہ اپنے آخری ایام میں جذباتی طور پر اپنے خاندان سے دور ہو گئی تھی٘ں۔ ان کی موت کے ایک سال بعد، کندن لعل دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ ان کی عمر اس وقت 73 سال تھی۔
گپتا لکھتے ہیں کہ کندن لعل کے لیے محض ایک خاموش تماشائی بننے کا تصور بھی ناقابلِ قبول تھا۔
'انھوں نے اگر کوئی ایسی چیز یا کسی کو دیکھا، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہو، تو انھوں نے اس پر توجہ دی، اور کبھی بھی مسئلے کی سنگینی سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔'
یہ الفاظ ایک ایسے شخصیت کو بیان کرنے کے لیے بالکل موزوں ہے جس کی میراث صرف کاروبار ہی نہیں بلکہ انحراف، ہمدردی اور یقین جیسے اصول تھے۔