"مجھے صرف کچھ نقد انعامات ہی ملے، باقی جتنے بھی پلاٹس یا بڑے انعامات کا اعلان ہوا تھا، وہ سب صرف وعدے ہی رہے... کوئی حقیقت نہیں تھی!"
یہ انکشاف پاکستان کے معروف اتھلیٹ اور اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم نے حال ہی میں لندن میں ایک تقریب کے دوران کیا، جہاں ان سے ان وعدوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو ان کی تاریخی کامیابی کے بعد حکومتی و نجی سطح پر کیے گئے تھے۔
ارشد ندیم، جنہوں نے پاکستان کو تین دہائیوں بعد اولمپک میں گولڈ میڈل دلایا اور اپنی محنت سے ملک کا نام عالمی نقشے پر اجاگر کیا، آج خود اپنے ہی ملک کی وعدہ خلافی کے شکار نظر آ رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کامیابی کے بعد انہیں پلاٹس اور کروڑوں روپے کے انعامات ملے یا نہیں، تو ان کا جواب چونکا دینے والا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کے اعلانات محض زبانی جمع خرچ تھے، کسی نے کوئی پلاٹ یا زمین حقیقت میں فراہم نہیں کی۔
صرف کچھ نقد انعامات ہی ان تک پہنچے، جو مختلف شخصیات اور حکومتی نمائندوں نے دیے, باقی سب تشہیر کے نعرے تھے۔
ارشد کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
ایک صارف نے طنز کیا: "تمہیں کیش انعام تو ملا، شکر ادا کرو!"
دوسرے نے لکھا: "یہ پاکستان میں عام بات ہے، وعدے اور دھوکے ساتھ ساتھ چلتے ہیں!"
جبکہ ایک اور نے کہا: "کیا تم پاکستان کا خزانہ لے جانا چاہتے ہو؟"
ارشد ندیم کی محنت، قربانی اور عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی قابل فخر ہے، مگر ان کے ساتھ ہونے والا سلوک اس نظام پر سوالیہ نشان ہے جہاں وعدے صرف ہیڈ لائنز کے لیے کیے جاتے ہیں، عمل کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔
کیا ایک قومی ہیرو کے ساتھ ایسا رویہ ہونا چاہیے؟
کیا ملک کی عزت کا سبب بننے والے سپورٹس مین کو فقط تالیاں اور خالی وعدے ہی ملنے چاہییں؟
یہ وہ سوال ہیں جو اب قوم خود سے پوچھ رہی ہے۔