'ایران کے یہودی: ایک جدید تاریخ' کے عنوان کے تحت اپنی تحقیق میںرحیمیانبتاتے ہیں کہسنہ1978 تک ایران میں تقریباً 80,000 یہودی تھے۔ ان میں زیادہ تر تہران میں رہتے تھےجہاںتقریباً 30 عبادت گاہیں تھیں، سرگرم سماجی اور ثقافتی تنظیمیں تھیں اور یہودی سکول تھے۔
مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک سے زیادہ یہودی آبادی آج بھی ایران میں موجود ہے’بیمار ہے یا چلا گیا؟‘
گذشتہ 13 سال سے اسرائیل کی ’ریخمن یونیورسٹی‘ میں ایرانی سیاسیات پڑھانے والے میئرجاویدنفر کو ایران میں گزارے گئے اپنے بچپن کا وہ وقت یاد ہے کہ جب تہران کے یہودی سکول میں اُن کا کوئی بھی ساتھی غیر حاضر ہوتا تو طلبا سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے یہ مختصر سوال کرتے۔
اگر غیرحاضری کو چند دن گزرجاتے تو ہم سمجھ جاتے کہ وہ ’چلا گیا ہے۔‘
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹکے لیے اپنے ایک مضمون میں جاویدنفرلکھتے ہیں کہ یہ 1980 کی دہائی کا وسط تھا اور ایران عراق کے خلاف ایک طویل جنگ میں الجھا ہوا تھا۔
محقق اورلی آر رحیمیان ’ایران کے یہودی: ایک جدید تاریخ‘ کے عنوان کے تحت اپنی تحقیق میں کہتے ہیں کہ تقریباً 2700 سال سے ایران میں رہتے یہودیوں کے لیے پہلوی دور خاص طور پر محمد رضا شاہ کا زمانہ (1941-1979)’سنہری دور‘ تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ سنہ 1978 تک ایران میں تقریباً 80,000 یہودی آباد تھے۔ اُن میں زیادہ تر تہران میں رہتے تھے جہاں تقریباً 30 یہودی عبادت گاہیں تھیں، سرگرم سماجی اور ثقافتی تنظیمیں تھیں اور یہودی سکول تھے۔
اگرچہ آبادی میں یہودیوں کا تناسب بہت کم تھا مگر اُن کا اقتصادی اور ثقافتی اثر نمایاں تھا اور وہ عموماً ایران کے متوسط یا اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
خمینی کی یہودیوں کو یقین دہانی
’اسلامی انقلاب‘ کے رہنما آیت اللہ خمینی کی یکم فروری 1979 کو وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے والوں میں 5,000 یہودی بھی شامل تھے جنھوں نے ’یہودی، مسلمان بھائی بھائی‘ لکھے بینرز اٹھا رکھے تھے۔
حبیب القانیان کی صیہونی سرگرمیوں کے الزام میں پھانسی کے بعد یہودی رہنماؤں نے قُم میں خمینی سے ملاقات کی، جنھوں نے یہ واضح کیا کہ وہ یہودیوں اور صیہونیوں میں فرق کرتے ہیں اور یقین دہانی کروائی کہ اقلیتوں کو مساوی حقوق دیے جائیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے بعد یہودیوں کو ’وفادار شہری‘ تسلیم کیا گیا مگر صیہونیت کو مجرمانہ فعل قرار دے دیا گیا تھا۔ اس پس منظر میں نوجوان ایرانی یہودی دانشوروں نے صیہونیت مخالف اور انقلابی تنظیم ’جامعہ روشن فکران یہودی ایران‘ قائم کی تاکہ کمیونٹی کو نئی شناخت دی جا سکے۔
تاہم انقلاب کے بعد اسرائیل مخالف جذبات، خوف اور عدم تحفظ کے باعث اندازاً 30 سے 40 ہزار یہودی امریکہ، 20 ہزار کے لگ بھگ اسرائیل جبکہ 10 ہزار یورپی ممالک نقل مکانی کر گئے۔
میشپاخا میگزین کے ایک مضمون ’ون وے فلائٹ‘ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے امیر ترین یہودیوں نے سب سے پہلے ملک چھوڑا اور اپنے ساتھ اپنا سرمایہ بھی لے گئے۔ لیکن جلد ہی حکومت نے سختی کر دی اور قانونی طریقے سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہا۔ اس کے باوجود ہزاروں یہودیوں نے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
سنہ 1978 تک ایران میں تقریباً 80,000 یہودی آباد تھے۔ اُن میں زیادہ تر تہران میں رہتے تھے جہاں تقریباً 30 یہودی عبادت گاہیں تھیں’اُس وقتسب سے زیادہ استعمال ہونے والا راستہ ایران اور ترکی کے درمیان واقع پہاڑوں سے ہو کر گزرتا تھا۔ مشرقی ترکی میں ایک یہودی خاندان ان افراد کو استنبول تک مدد فراہم کرتا، لیکن بہت سے لوگ وہاں پہنچنے کے بعد کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے پھنس جاتے تھے۔‘
ایرانی نژاد سویڈش لکھاری تریتا پارسی اپنی کتاب ’ٹریچرس الائنس‘ میں اس منتقلی کا پس منظر یوں بیان کرتے ہیں۔
’سنہ1980کے اوائل میں امریکی یرغمالی بحران پھوٹنے کے صرف چند ماہ بعد احمد کاشانی، جو کہ آیت اللہ ابوالقاسم کاشانی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے (وہی عالم دین جنھوں نے 1951 میں ایرانی تیل کی صنعت کو قومیانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا)، اسرائیل گئے۔ غالباً انقلاب کے بعد اسرائیل جانے والے پہلے ایرانی وہی تھے۔‘
’اُن کا دورہ اسلحہ فروخت اور عراق کے اوسیراک نیوکلیئر پروگرام کے خلاف عسکری تعاون پر بات چیت کے لیے تھا۔ اس دورے کے نتیجے میں وزیرِاعظم بیگن نے ایران کو فینٹم جنگی طیاروں کے لیے ٹائروں کی ترسیل اور ایرانی فوج کے لیے اسلحہ بھیجنے کی منظوری دے دی۔‘
’بیگن کا یہ فیصلہ امریکہ کے مفادات اور واشنگٹن کی ایران کو تنہا کرنے کی واضح پالیسی کے بالکل خلاف تھا، جس کا مقصد امریکی یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانا تھا۔ کارٹر (اُس وقت کے امریکی صدر) بیگن کی اس ’بے حسی‘ پر شدید برہم ہوئے، جو وہ امریکا کے دکھ اور بحران کے دوران ظاہر کر رہے تھے۔ دونوں سخت مزاج رہنماؤں کے درمیان تند و تیز تبادلہ ہوا، جس کے بعد کارٹر نے اسرائیل کو سزا دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ اسلحے کے پرزہ جات کی فروخت روک دی جائے گی۔‘
لیکن بیگن کی یہ نافرمانی ( یہودیوں کے لیے) فائدہ مند ثابت ہوئی۔
آیت اللہ خمینی نے اسرائیل کی اس پیش رفت کے جواب میں بڑی تعداد میں ایرانی یہودیوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دے دی۔ بہت سے یہودی ترکی کے راستے فرار ہو ئے، ہزاروں یہودی بسوں کے ذریعے پاکستان کی سرحد عبور کر کے وہاں پہنچے، جہاں سے انھیں آسٹریا بھیجا گیا اور پھر وہاں سے وہ امریکا یا اسرائیلچلے گئے۔
میئرجاویدنفر لکھتے ہیں کہ ’میں اور میرے دوست تہران کے یہودی ہائی سکولوں میں پڑھتے اپنے دوستوں کو اچانک غائب ہوتا دیکھتے اور پھر چھ ماہ بعد وہیورپ، امریکہ یا اسرائیل میں دوبارہ نمودار ہوتے۔ وہ ایک منظم سمگلنگ نیٹ ورک کے ذریعے وہاں پہنچتے جو ایران کے یہودیوں کو خاموشی سے ملک سے نکال کر پاکستان پہنچاتا تھا۔‘
’اسرائیل میں یہودی ایجنسی (سوخنوت) سے ایک فون کال موصول ہوتی جس میں پوچھا جاتا کہ کیا ’آپ شادی کے لیے تیار ہیں‘۔ بچپن میں مجھے بتایا گیا تھا کہ اگر فون اٹھانے کے بعد مجھے یہ کوڈ جملہ سنائی دے تو مجھے فوری طور پر اپنے والدین کو مطلع کرنا ہو گا اور انھیں فون دینا ہو گا۔‘
’مجھے یاد ہے کہ 1985 کے موسم گرما میں یہ جمعہ کا دن تھا اور میرے والدین دوپہر کی نیند لے رہے تھے۔ گھنٹی بجنے پر میں نے فون اٹھایا اور معمول کی سلام دعا کے بعد کال کرنے والے نے مجھ سے سوالیہ کوڈ پوچھا۔ میں بھاگ کر اپنے والد کے پاس گیا اور انھیں بتایا۔ انھوں نے فون اٹھایا اور کہا کہ ہم ابھی تیار نہیں۔‘
البتہ طریقہ صرف یہی نہیں تھا۔
جاویدنفر کے مطابق دوسرے لوگ یہودی کمیونٹی میں ایسے لوگوں کو جانتے تھے جو پاکستان کی سرحد سے متصل ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں اپنے رابطوں کے ذریعے سمگلنگ کی پوری کارروائی کا بندوبست کر سکتے تھے۔ اس کے بعد، سمگل کیے گئے افراد، اور بعض صورتوں میں پورے خاندان، خاموشی سے سرحد پار کر کے پاکستان پہنچا دیے جاتے تھے۔‘
12 اکتوبر 1984 کو واشنگٹن پوسٹ کے لیے کوئٹہ سے رپورٹ کرتے ہوئے ولیم کلیبورن نے لکھا کہ زاہدان (ایران) کو بطور سٹیجنگ ایریا استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ رات کے وقت کوہِ تفتان کی سافٹ سرحد پار کرتے ہیں اور 400 میل کا فاصلہ طے کر کے بلوچستان سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پہنچتے ہیں، جہاں ایک، دو دن قیام کے بعد وہ کراچی کا آخری سفر کرتے ہیں۔
ایرانی اور پاکستانی بلوچ انھیں سمگل کر کے منافع بخش کاروبار کر رہے ہیں، یہ کام اس وقت بڑھنا شروع ہوا جب اطلاعات آئیں کہ ترک سکیورٹی فورسز نے ایرانی مہاجرین کو گرفتار کر کے ایران کی مغربی سرحد پر واپس دھکیل دیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ میں 2 اکتوبر 1987 کو چھپنے والی رپورٹ میں مائیکل جے برلن نے لکھا کہ آسٹریا کے وزیرِ خارجہ ایلوئس موک نے اقوامِ متحدہ کے ایک ظہرانے میں صحافیوں کو بتایا کہ ایران خفیہ طور پر ہزاروں یہودی شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دے رہا ہے، جو پاکستان کے راستے آسٹریا پہنچتے ہیں اور وہاں سے امریکہ یا اسرائیل چلے جاتے ہیں۔
’موک نے بتایا کہ یہ مہاجرین ایران کی سرحد بسوں کے ذریعے عبور کرتے ہیں اور دونوں طرف کے مقامی حکام کی جانب سے کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرتے۔ ان افراد کو ویانا (آسٹریا) لے جایا جاتا ہے، جہاں سے وہ اپنا حتمی مقام خود منتخب کرتے ہیں۔‘
ایران میں آج بھی نو ہزار کے لگ بھگ یہودی آباد ہیں’واشنگٹن میں یو ایس، پاکستانی الائنس کے چارلس ناسم نے کہا کہ ان کے خیال میں گذشتہ سال تقریباً 500 یہودی ایران سے پاکستان کے راستے نکلے، جو تقریباً 10 یا 15 قافلوں میں سفر کر رہے تھے۔ ناسم کے مطابق پاکستانی حکومت نے ان یہودیوں کو ’نو آبجیکشن سرٹیفکیٹس‘ جاری کیے، جن کے ذریعے وہ ملک سے گزرنے کے مجاز ہوئے۔‘
جاویدنفر کے مطابق 'یہ آپریشن ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے تھے۔ بعض صورتوں میں ایران کے سرحدی محافظ انھیں سمگلر سمجھ کر گاڑیوں پر فائرنگ کرتے۔ یہاں تک کہ ہلاکتیں ہوئیں، جن میں ایک 15 سالہ یہودی ایرانی لڑکی کی موت بھی شامل ہے۔ کچھ کو پکڑ کر مختصر مدت کے لیے جیل بھیج دیا جاتا اور پھر رہا کر دیا جاتا۔‘
’زیادہ تر فرار ہونے والے دوبارہ قسمت آزماتے اور کامیاب ہو جاتے۔ میں ذاتی طور پر ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے ایرانی سرحدی محافظوں نے تین بار پکڑا اور چھوڑ دیا۔ آخرکار وہ چوتھی کوشش میں سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘
’ایکبار آٹھ ایرانی یہودی جو سرحد عبور کر کے پاکستان جا رہے تھے، لاپتا ہو گئے۔ بعدازاں موساد کو پتہ چلا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز نے ان میں سے اکثر کو حزب اختلاف کے ارکان سمجھ کر ہلاک کر دیا ہے۔ دریں اثنا، پاکستان جاتے ہوئے لاپتا ہونے والے مزید تین ایرانی یہودیوں کی قسمت کا پتا نہیں چل سکا ہے۔‘
موساد کا ہاتھ
جاویدنفرنے لکھا ہے کہ ’برسوں بعد یہ بات سامنے آئی کہ ( یہودیوں کی منتقلی کی) ایسی کارروائیوں کے پیچھے موساد کا ہاتھ تھا۔‘
'ایران میں ہم میں سے ہر ایک اسے سوخنوت کا کام سمجھتا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی: موساد نے گذشتہ برسوں کے دوران یہودیوں کو بچانے کے لیے بہت سے آپریشن کیے ہیں، جس کی ایک قابل ذکر مثال ایتھوپیا کے یہودیوں کو بچانے کے لیے 1980 کی دہائی کے وسط میں کیا گیا ’آپریشن موسیٰ‘ ہے۔‘
'ایرانی سمگلروں سے روابطممکن ہے کہ موساد نے 1970 کی دہائی میں قائم کیے ہوں، جب اسرائیل اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات موجود تھے، تا کہ اگر کسی غیر متوقع صورتحال میں ملک سے نکلنے کے دیگر راستے بند ہو جائیں تو ایران میں موجود موساد ایجنٹس اور دیگر اسرائیلیوں کے لیے فرار کے متبادل راستے موجود ہوں۔‘
’اس وقت پاکستان شدید اسرائیل مخالف تھا، آبادی میں یہود دشمن جذبات عام تھے اور اسرائیل کے پاس پاکستان کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ 1980 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 1997 میں آپریشن کے اختتام تک پاکستانی حکومت اس بات پر آمادہ ہو گئی کہ وہ ان ہزاروں ایرانی یہودیوں کی میزبانی کرے، جنھیں موساد کے خفیہ آپریشن کے تحت ڈیڑھ دہائی تک سمگل کر کے باہر نکالا گیا؟‘
'غالب امکان یہی ہے کہ جب ایرانی یہودی پاکستان کی سرحد پار کر کے پہنچتے تو امریکی امداد یافتہ یہودی اور دیگر پناہ گزینوں کی فلاحی تنظیمیں ان کو عارضی رہائش اور مدد فراہم کرتیں، یہاں تک کہ ان کے کیس مکمل طور پر پروسیس ہو جاتے۔‘
میشپاخا میگزین کے مطابقآرتھر کوہن، جنھوں نے ایرانی یہودیوں کو استنبول سے ایمسٹرڈیم پہنچانے کا بھی انتظام کیا، اور کلینیکل ماہرِ نفسیات یعپ سانڈرز نے پاکستان کے راستے تین ہزار سے زائد ایرانی یہودیوں کو باہر بھجوایا۔
'سیما مائیکل اسرائیل کے شہر بیت شیمش میں مقیم ہیں۔ وہ 1987 میں زاہدان سے کراچی کے راستے فرار ہوئیں اور ایمسٹرڈیم کے ذریعے اسرائیل پہنچیں۔

سیما کہتی ہیں: ’ہم 13 افراد کا گروپ تھا جن میں ایک بوڑھی دادی اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل تھا۔ میں اور میری بہن کم عمر تھیں، والدین ہمارے ساتھ نہیں تھے، وہ کئی سال بعد وہاں سے نکل سکے۔ ہم نے ایک دن اور آدھی رات پیدل پہاڑ عبور کیے، پھر ایک جھونپڑی میں پہنچے۔‘
’ہمیں بسکٹ اور کوک دی گئی اور ہم نے پاکستانی لباس پہنے تاکہ توجہ نہ جائے۔ پھر جب ہم سرحد کے قریب پہنچے تو ہمیں ایک کھلے ٹرک میں ڈال دیا گیا۔ ہمیں سارڈین مچھلیوں کی طرح ساتھ ساتھ لیٹنا پڑا۔ ٹرک تیزی سے سرحد پار کر گیا۔‘
’کوئٹہ میں اقوامِ متحدہ کے مہاجرین کے دفتر نے اُن فرار ہونے والوں کو پناہ گزین کا درجہ دیا۔ اس کے بعد وہ نسبتاً محفوظ ہو جاتے اور جنوب کی طرف کراچی روانہ ہوتے۔ کراچی میں وہ سستے ہوٹلوں میں رہائش اختیار کرتے اور وہاں سے آگے کا بندوبست کرتے۔‘
آرتھر کوہن اور سانڈرز ایک ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب رہے جو ایرانی مہاجرین کے لیے قانونی سفری کاغذات تیار کرتا تھا، جس کے ذریعے وہ پاکستان سے ہالینڈ (ایمسٹرڈیم) ہوتے ہوئے دیگر ممالک جا سکتے تھے۔
سیما کے مطابق: ’یہ آپریشن ایککاروباری شخص مینّی وائس اور اُن کے ساتھیوں کی مالی معاونت سے چل رہا تھا، جو یورپ کی ایک بڑی دھات اور تیل کی کمپنی کے پارٹنر تھے۔‘
جاویدنفر لکھتے ہیں کہ پاکستان نے اُن یہودیوں میں سے کسی کو بھی واپس نہیں کیا جو سرحد پار کر کے یہاں پہنچے تھے۔
’ایران کے یہودی، جن میں میرے خاندان اور تہران کے یہودی معبد کے بہت سے ارکان شامل ہیں، ہمیشہ پاکستانی حکومت اور عوام کے شکر گزار رہیں گے کہ انھوں نے اُن کی میزبانی کی۔‘
میگزین کے مطابق یہ نظام کئی سال تک کامیابی سے چلتا رہا۔ ہر چند ماہ بعد درجنوں مہاجرین ایمسٹرڈیم روانہ ہوتے۔
’سانڈرز بتاتے ہیں کہایرانی حکام سمگلنگ کے نیٹ ورک سے آگاہ ہو چکے تھے، خاص طور پر یہ دیکھ کر کہ یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ’عجیب تعطیلات‘ پر جا رہی ہے یا اپنا مال بیچ رہی ہے۔ ایرانی خفیہ ادارہ بھی کوہن اور سانڈرز کی سرحد پار سرگرمیوں سے واقف ہو چکا تھا۔‘
’اس کے علاوہ1995 تک ایران سے قانونی طور پر نکلنے کے امکانات بڑھ گئے تھے، بشرطیکہ خاندان کا کوئی ایک فرد ایران میں بطور ضمانت پیچھے چھوڑ دیا جائے۔‘
’ساتھ ہی، سمگلر چونکہ اپنا منافع کھو رہے تھے، اس لیے وہ مسائل پیدا کرنے لگے۔‘
’سانڈرز کے مطابق بہت سے یہودی راستے میں لوٹے گئے، کچھ کو ہراساں کیا گیا، کچھ کو حکام کے حوالے کیا گیا، اور چند کو اغوا کر کے افغانستان لے جایا گیا۔ اب یہ راستہ محفوظ نہیں رہا تھا۔‘
’لہٰذا، وہ کوئی متبادل راستہ تلاش کرنے لگے۔ نقشہ کھول کر دیکھا گیا۔
ترکی — مشکلات سے بھرا
عراق — ممکن ہی نہیں
آذربائیجان — کوئی نظام نہیں
افغانستان — جنگ کا میدان
تو باقی رہ گیا: ترکمانستان
’لیکن سانڈرز تسلیم کرتے ہیں کہ یہ محض ایک خیال ہی رہا، عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ لیکن ایران میں حالات بدل رہے تھے۔‘
’اب فرار کے راستے بند ہو رہے تھے، مگر منتقلیکے دروازے کھل رہے تھے۔‘
ایران ایک ایسا ملک ہے جہاں جلسے جلوسوں میں باقاعدگی سے ’اسرائیل مردہ باد‘ کے نعرے لگتے ہیں۔ اس کے باوجود، اسرائیل اور ترکی کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی یہودی آبادی ایران ہی میں موجود ہے۔ گو کہ یہ تعداد کم ہو کر نو ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔