تقریبا چھ برس قبل سمندر میں غرق ہو جانے والے کنٹینرز بردار بحری جہاز سے سامان نکالنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سنہ 2019 میں نیدرلینڈز کے واڈن سمندر میں شدید طوفان کی زد میں آ کر دنیا کے سب سے بڑے بحری جہازوں میں سے ایک ’ایم ایس سی زوئی‘ سے سینکڑوں کنٹینر سمندر میں گر گئے تھے۔
ان کنٹینروں میں گاڑیوں کے پرزے، ٹی وی، بلب، فرنیچر، کھلونے اور دوسری اشیا شامل تھیں تاہم حادثے کے بعد واڈن سمندر کے ساحل پر کچرے کے انبار لگ گئے تھے۔
تقریبا چھ برس بیت جانے کے بعد بھی نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے رضاکار ڈوب جانے والے کنٹینرز سے مواد نکالنے میں مصروف ہیں تاکہ سمندر کو کچرے سے پاک کیا جا سکے۔
نیدرلینڈز، جرمنی اور ڈنمارک کے ساحلوں تک پھیلا ہوا یہ سمندر ’یونیسکو ورلڈ ہیری ٹیج سائٹس‘ میں شامل ہے۔ حادثے کے فوری بعد ابتدائی طور پر صفائی کا عمل شروع کر دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود سمندر کی تہہ میں ملبہ موجود ہے۔
ملبہ نکالنے والے رضاکارغوطہ خور ہیرالڈ بٹیرم نے بتایا کہ ’میں نے حال ہی میں سمندر کی تہہ سے جال، ملبہ اور بجلی کی تاریں نکالیں جو غالباً ایم ایس سی زوئی کے کنٹینروں کا حصہ تھیں۔‘
67 سالہ غوطہ خور مزید بتاتے ہیں کہ ’ایک اور غوطے کے دوران مجھے ایک بچے کی گلابی جیکٹ بھی ملی جس پر کیکڑے اور کچھ دوسری آبی حیات چمٹے ہوئے تھے۔‘
اب تک تقریباً 800 ٹن کچرا سمندر کی تہہ سے نکالا جا چکا ہے (فوٹو: روئٹرز)
ہیرالڈ بٹیرم نے تقریباً 45 منٹ تک 22 میٹر گہرائی میں گزارے، وہ کہتے ہیں ’یہ ایک نیک مقصد ہے۔ زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ سمندر کی تہہ میں کتنا کچرا پڑا ہے۔ جو کچھ بھی ہمارے گھروں میں موجود ہے، وہ انہی کنٹینروں کے ذریعے آتا ہے۔‘
اس حادثے کے دوران پلاسٹک کی صنعت میں استعمال ہونے والا زہریلا اور آتش گیر کیمیکل بھی سمندر میں شامل ہو گیا تھا۔
سنہ 2021 میں چار ڈچ ماحولیاتی تنظیموں نے ’کلین اپ ایکس ایل‘ منصوبے کا آغاز کیا تھا جس کے تحت اب تک کشتیاں اور غوطہ خور تقریباً 800 ٹن کچرا سمندر کی تہہ سے نکال چکے ہیں۔
منصوبے کی ڈائریکٹر ایلین کوئپرز کے مطابق ’یہ صرف ایم ایس سی زوئی کے ملبے کی بات نہیں بلکہ مجموعی طور پر سمندر کی صفائی ضروری ہے، کیونکہ یہ علاقے عالمی ورثہ قرار دیے جا چکے ہیں۔ ہم یہ کام حکومت پر دباؤ ڈالنے اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے بھی کر رہے ہیں۔‘
کنٹینرز میں روز مرہ کے استعمال کی اشیا تھیں (فوٹو: روئٹرز)
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے ابتدائی برسوں میں بڑی مہم چلائی لیکن بعد میں کوششیں کمزور پڑ گئیں۔ رواں برس اپریل میں حکومت نے ایک خفیہ فہرست جاری کی جس میں چھ ہزار مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں مزید کچرا موجود ہو سکتا تھا۔‘
غوطہ خور ہیرالڈ بٹیرم نے بتایا کہ ’کافی کچھ تو سطح پر آ جاتا ہے لیکن زیادہ تر کچرا اب بھی سمندر کی تہہ میں ہی پڑا ہوا ہے۔ یہ نگاہوں سے اوجھل ہے، اس لیے ذہنوں سے بھی اوجھل ہو جاتا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ اس طرف دلائیں۔‘