حال ہی میں ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کیے جانے والے امریکی آپریشن ’مڈ نائٹ ہیمر‘ سے اس بات کی جھلک ملتی ہے کہ امریکی خلائی فورس کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بی بی سی وہ پہلا ادارہ ہے جسے امریکی خلائی فورس کے میزائل وارننگ اور ٹریکنگ آپریشن روم کے اندر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل این ہیوز کو اس بات کی خوشی ہے کہ اُن کی یونٹ گذشتہ ماہ قطر میں امریکی فوجی اڈے پر داغے گئے ایرانی میزائلوں کو ٹریک کرنے میں کامیاب رہا’لانچ یمن۔‘
یہ فقرہ سُنتے ہی کمپیوٹرز کے سامنے بیٹھے اہلکاروں نے یک زبان ہو کر جواب دیا: ’کاپی، لانچ یمن۔‘
یو ایس سپیس فورس (امریکی خلائی فورس) میں کمپیوٹرز کے سامنے بیٹھے اِن اہلکاروں کو فوجی نہیں بلکہ ’گارڈیئنز‘ (محافظ) کہا جاتا ہے۔
امریکی ریاست کولاراڈو میں اپنے کمپیوٹرز کی سکرینوں کے سامنے بیٹھے یہ افراد دنیا میں کہیں سے بھی داغے گئے میزائل کا پتا لگا سکتے ہیں۔ میزائل کے لانچ ہونے سے لے اس کے اپنے ہدف سے ٹکرانے تک، وہ اس کی کسی بھی حرکت کا پتا لگا سکتے ہیں۔
بی بی سی پہلا بین الاقوامی صحافتی ادارہ ہے جسے ’بکلی سپیس فورس اڈے‘ میں واقع امریکی خلائی فورس کے میزائل وارننگ اور ٹریکنگ آپریشن روم تک رسائی دی گئی ہے۔
اس آپریسن روم میں ہر طرف بڑی بڑی سکرینیں لگی ہوئی ہیں جو ہمہ وقت خلا میں موجود فوجی سیٹلائٹس کی جانب سے بھیجے گئے نقشے اور ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔
جب بھی دنیا کے کسی بھی حصے سے میزائل لانچ ہوتا ہے تو سب سے پہلے گارڈیئنز کو اس کے انفرا ریڈ ہیٹ سگنل کا پتا چلتا ہے۔ ہم اس آپریشن روم میں ہی موجود تھے جب کچھ ہی لمحوں بعد ’لانچ ایران‘ کا نعرہ بلد ہوا اور اس کے ساتھ ہی ’کاپی لانچ ایران‘ کی آواز سنائی دی۔
اس وقت تو صرف مشقیں ہو رہی ہیں۔ لیکن گذشتہ ماہ جب ایران نے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے جواب میں قطر میں امریکی فوجی اڈے العدید پر میزائل حملے کیے تو گارڈیئنز یہی کام سچ میں کر رہے تھے۔
کرنل این ہیوز کہتے ہیں کہ اُس روز آپریشن روم میں موڈ کافی سنجیدہ تھا۔ دیگر میزائل لانچز کے برعکس، ان کے پاس اس کی پیشگی اطلاع موجود تھی۔ وہ ایرانی میزائلوں کو ٹریک کرنے میں کامیاب رہے اور پھر ان معلومات کو زمین پر موجود فضائی دفاعی نظام کو بھیجا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ بالآخر ہم العدید اڈے اور وہاں موجود تمام فوجیوں کو بچانے میں کامیاب رہے۔
امریکی خلائی فورس دنیا میں کہیں بھی لانچ کیے جانے والے میزائلوں کو ٹریک کر سکتی ہے۔کرنل ہیوز کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں چلتی جنگوں کے باعث اُن کا یونٹ کافی مصروف رہا ہے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا اُن کا یونٹ یوکرین کو بھی میزائل حملوں کی پیشگی اطلاع دیتا رہا ہے؟ تو اس پر کرنل ہیوز کا کہنا تھا کہ ’ہم تمام امریکی اور اتحادی افواج کو سٹریٹیجک اور ٹیکٹیکل وارننگ مہیا کرتے ہیں۔‘
امریکی کھلے عام اس بات کی تصدیق تو نہیں کرتے ہیں تاہم لگتا ایسا ہے کہ وہ یوکرین کو روسی حملوں سے متعلق پیشگی خبردار کرتے آئے ہیں۔
بکلی سپیس فورس بیس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے میزائل دفاعی نظام ’گولڈن ڈوم‘ کا ایک اہم حصہ ہو گی۔
اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ سے متاثر اس منصوبے کے لیے صدر ٹرمپ نے 175 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔ بہت سے افراد کا ماننا ہے کہ اس پر اس سے کہیں زیادہ لاگت آئے گی۔
لیکن بکلی میں اس کی بنیاد پہلے ہی پڑنے لگی ہیں۔ یہاں ریڈومز نصب کر دیے گئے ہیں جن کا مقصد اڈے پر لگے طاقتور سیٹلائٹ ڈشوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ دور سے گالف کی گیندوں کی طرح دکھنے گنبد نما ریڈومز دراصل گول کور ہوتے ہیں۔
یہ سیٹلائٹ 11 ہزار نوری سال دور موجود سپر نووا سے آنے والی ریڈیو فریکوئنسی کا بھی پتا لگا چکی ہے۔
یو ایس سپیس آپریشنز کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈیوڈ ملر کا کہنا ہے کہ گولڈن ڈوم منصوبہ جو کہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اس بات کی امریکہ کو بڑھتے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔
وہ خاص طور پر چین اور روس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اِن دونوں ممالک نے ایسے ہائپر سونک میزائل بنا لیے ہیں جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیزی سے اڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس اور چین نے فریکشنل اوربٹل بمبارڈمنٹ سسٹم کا تجربہ کیا جس کا پتا لگانا مشکل ہے۔
جنرل ملر کا کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں کو روکنے کے لیے درکار رفتار اور صلاحیتوں کے لیے خلا میں انٹرسیپٹرز لگانے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ امریکہ کے مفادات کے دفاع کے لیے خلا میں ہتھیاروں کی بجائے ’صلاحیتوں‘ کی بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
پانچ سال قبل امریکی خلائی فورس کی تشکیل اس بات کا ثبوت ہے کہ خلا اب ایک جنگی میدان بن گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران اس فورس کو لانچ کرتے ہوئے خلا کو ’دنیا کا نیا میدانِ جنگ‘ قرار دیا ہے۔
چین اور روس دونوں نے اینٹی سیٹلائٹ میزائلوں کے ساتھ ساتھ ان کے مواصلات کو جام کرنے کے طریقوں کا تجربہ کر چکے ہیں۔
جنرل ملر کا کہنا ہے کہ روس نے خلا میں ’ممکنہ طور پر جوہری پے لوڈ لے جانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ خلا پہلے سے ہی ایک ایسی جگہ ہےجہاں بہت زیادہ مقابلہ ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہمیں خلا میں تنازعات کے لیے تیار رہنا ہو گا۔‘
کرنل فینکس ہوزر ڈیلٹا 7 نامی خلائی افواج کی انٹیلیجنس، نگرانی اور جاسوسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔ ان کا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ خلا میں کیا ہو رہا ہے۔
کولوراڈو سپرنگ کے قریب واقع اپنے اڈے پران کی ٹیمیں سکرینوں پر دنیا کے گرد دکھنے والے ہزاروں چھوٹے نقطوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خلا میں اس وقت تقریباً 12000 سیٹلائٹ موجود ہیں جن کی تعداد اس دہائی کے آخر تک بڑھ کر 60,000 تک پہنچ سکتی ہے۔
خلا میں اس وقت 12 ہزار سے زائد سیٹلائٹس موجود ہیں اور وقت کے ساتھ یہ مقابلہ تیز تر ہو رہا ہےکرنل ہوزر کا کہنا ہے کہ اُن کی بنیادی توجہ چین پر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ تیزی سے بڑھتا خطرہ ہے۔‘ چین کے پاس پہلے ہی تقریباً ایک ہزار سیٹلائٹس موجود ہیں جن میں سے نصف عسکری نوعیت کی ہیں۔ کرنل ہوزر کا کہنا ہے کہ اگلی دہائی کے دوران چین کے پاس زمین کے نچلے مدار میں مزید دسیوں ہزار سیٹلائٹ ہوں گے۔ خلا میں جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے اور مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
’ہم پہلے ہی خلا میں لڑ رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ مخالفین کی جانب سے غیر پیشہ ورانہ اور غیر محفوظ کارروائیوں کا سامنا ہے جس میں الیکٹرانک جیمنگ، لیزرز اور حتیٰ کہ جال اور جوڑنے والے ہتھیاروں سے لیس سیٹلائٹ بھی شامل ہیں۔
کچھ لوگوں نے خیال ہے کہ خلا میں پہلے ہی دوبدو لڑائیاں ہو رہی ہیں۔
کرنل ہوزر کا کہنا ہے کہ ابھی فی الحال ٹاپ گن طرز کی آمنے سامنے کی جنگ تک پہنچ چکے ہیں۔ ’لیکن یہ یقینی طور پر ایسی چیز ہے جس کے لیے ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘
کرنل فینکس ہوزر کہتی ہیں کہ امریکہ کو خلا میں کسی بھی ممکنہ جارحیت کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہےامریکی خلائی فورس خلا میں کسی بھی ممکنہ تصادم کے امکان کی تیاری کر رہی ہے۔ کرنل ہوزر کا کہنا ہے کہ ایک سال قبل وہ ’جارحانہ خلائی صلاحیتوں کے بارے میں بات بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اب ان کے مطابق وہ صدر ٹرمپ کو امریکہ کو حاصل خلائی برتری کو جارحانہ اور دفاعی خلائی کنٹرول کے ذریعے برقرار رکھنے کے لیے مختلف آپشنز کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔‘
جنرل ملر کا کہنا ہے کہ تنازعات کو روکنے کا واحد طریقہ طاقت کا حصول ہے۔ ’ہمیں اپنے اثاثوں کا دفاع کرنے کے لیے صلاحیتیں پیدا کرنا ضروری ہے۔‘ تاہم انھوں نے اس بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے۔
لیکن ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کیے جانے والا امریکی آپریشن ’مڈ نائٹ ہیمر‘ سے اس بات کی جھلک ملتی ہے کہ امریکی خلائی فورس پہلے ہی کیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بی 2 بمبار طیاروں کے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ خلا میں تسلط برقرار رکھنا امریکی فوج کے لیے کیوں ضروری ہے۔
جنرل ملر کا کہنا ہے کہ آپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ امریکی فوج کو خلا میں حاصل برتری سے کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اس برتری کی وجہ سے امریکی افواج کو آسمانوں میں رابطہ قائم رکھنے، باآسانی ہدف تک رسائی اور جی پی ایس سے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں مدد ملتی ہے۔
بی بی سی کو اس بارے میں پہلی تفصیلات دی گئی ہیں کہ کس طرح امریکی خلائی فورس کے گارڈینز بھی اس آپریشن میں شامل تھے۔
جنرل ملر کا کہنا ہے کہ ہم نے الیکٹرومیگنیٹک وارفیئر صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے آپریشن کے دوران اپنا تسلط برقرار رکھ سکے۔ الیکٹرو میگنیٹک سپیکٹرم میں ریڈیو ویور، مائیکرو ویوز، انفرا ریڈ اور مرئی روشنی شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انھیں معلوم تھا کہ ہر چیز جام ہو جائے گی۔ امریکی سپیس فورس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بی 2 بمبار جہاز اس جیمنگ سے متاثر نہ ہوں تاکہ وہ اپنے ہدف پر پہنچ کر اسے جی پی ایس گائیڈڈ میسیو آرڈیننس بموں سے نشانہ بنا سکیں۔
سپیس فورس کے یونٹ ہفتے کے ساتوں دن اور دن کے 24 گھنٹے الرٹ رہتے ہیںامریکی خلائی فورس کے ڈیلٹا 3 یونٹ کے الیکٹرانک وارفیئر کے ماہرین پہلے ہی اس خطے میں زمین پر کام کر رہے تھے۔
ڈیلٹا 3 یونٹ کے کمانڈر کرنل اینجلو فرنانڈیز مجھے سیٹلائٹ ڈشز اور کمانڈ کنٹینرز کی قطاریں دکھائیں جنھیں وہ دنیا کے کسی بھی مقام پر اڑا کر لے جا سکتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان ڈشوں کی مدد سے دشمن کے کمیونیکیشن نظام کو نہ صرف سن سکتے بلکہ اس میں بہت زیادہ شور پیدا کر کے اسے ناقابلِ سماعت بنا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا اس کی مدد سے انھوں نے امریکی تنصیبات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک فلائیٹ کوریڈور بھی مہیا کرنے میں کامیاب رہے۔
امریکی سپیس فورس کے ڈیلٹا 7 کے گارڈیئنز آپریشن کے پہلے، مشن کے دوران اور بعد میں بھی پوری صورتحال پر نظر رکھے ہوَئے تھے۔
کرنل ہوزر کا کہنا ہے کہ وہ الیکٹرو میگنیٹک سپیکٹرم کی نگرانی کر کے یہ پتا لگا پائے کہ ایران اس صورتحال سے کس حد آگاہ ہے اور آیا تہران کو اطلاع ہے کہ ایسے حملے ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان ہی صلاحیتوں کے بدولت امریکی آپریشن حیرت کا عنصر برقرار رکھ سکا اور فضائی عملے کو بنا کسی رکاوٹ کے اپنا مشن پورا کرنے کا موقع مل گیا۔
سپیس فورس شاید امریکی فوج میں سب سے نئی سروس ہو لیکن یہ امریکہ کی فوجی طاقت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ جنرل ملر کا کہنا ہے کہ پوری امریکی فوج ’خلائی برتری پر منحصر ہے۔‘
وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ صورتحال برقرار رہے۔
جنرل ملر کسی بھی مخالف کو متنبے کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جب امریکی فوج کی توجہ کسی چیز پر مرکوز ہو جائے تو - خدا ہی آپ کی مدد کرے!‘