نامور اداکار نصیر الدین شاہ جو آرٹ اور کمرشل سینما کا سنگم بنے

image
وہ انا پرست، خودبین و خود آرا ہیں، ان کے نزدیک انڈیا کے پہلے بالی وڈ سٹار راجیش کھنہ اچھے اداکار نہیں ہیں۔ وہ دلیپ کمار کی اداکاری کے مداح تو ہیں لیکن اداکاری میں وراثت نہ قائم کرنے پر ان کے ناقد بھی ہیں۔

وہ امیتابھ بچن کے بھی ناقد ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امیتابھ بچن نے کوئی ’عظیم‘ فلم نہیں دی۔ تمام تر کامیابیوں کے باوجود فلم ’شعلے‘ ان کے نزدیک اچھی فلم نہیں ہے۔

یہ بالی وڈ اداکار نصیر الدین شاہ کا ایک چھوٹا سا اور آدھا ادھورا تعارف ہے۔ وہ آج سے 75 سال قبل آج ہی کے دن اترپردیش کے بارہ بنکی میں ایک نواب خاندان میں پیدا ہوئے۔

یہاں ہم ان کی زندگی پر ایک نظر ڈال رہے ہیں جن میں ان کی فلموں کے ساتھ چند دلچسپ واقعات بھی شامل ہیں۔

نصیرالدین شاہ بالی وڈ کے ایک ایسے اداکار ہیں جنہیں جتنے لوگ پسند کرتے ہیں، اتنے ہی لوگ انہیں ناپسند بھی کرتے ہیں۔ انہیں پسند کرنے کی وجوہات میں ان کی شاندار اداکاری اور آرٹ اور کمرشل فلموں میں بہ آسانی گھلنے ملنے کی صلاحیت ہے اور نہ پسند کیے جانے کی وجوہات میں ان کا تنقیدی رویہ ہے جو فلم اور سماج کے بدلتے منظرنامے پر اکثر و بیش تر دیکھا جاتا ہے۔

نصیر الدین شاہ کے جد امجد افغان ’وار لارڈ‘ جان فشان خان تھے جو بعد میں سردھنا کے نواب بنے۔ انہوں نے اجمیر اور نینی تال سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے ساتھ ہی دلی کے نیشنل سکول آف ڈراما سے وابستہ ہو گئے۔

نصیر الدین شاہ کے والد ان کے فلموں میں جانے یا اداکاری کے کریئر کو اپنانے کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ نصیر الدین شاہ خود اپنی سوانح ’اینڈ دن ون ڈے‘ میں بتاتے ہیں کہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں لیکن وہ اداکاری اور کرکٹ کی طرف راغب تھے۔

انہیں کم عمری میں ہی سٹیج کے طاقت ور ہونے کا احساس ہو گیا تھا جس کے بعد ان میں اداکاری کی دھن سوار ہو گئی اور وہ محض 16 سال کی عمر میں گھر سے بھاگ کر بمبئی میں اپنے شوق کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔

نصیر الدین شاہ کے جد امجد افغان ’وار لارڈ‘ جان فشان خان تھے جو بعد میں سردھنا کے نواب بنے (فائل فوٹو: بالی وُڈ ڈائریکٹ)

لیکن جب وہ دلیپ کمار سے ملے تو دلیپ کمار نے ان کی حوصلہ شکنی کی اور کہا کہ ان جیسے گھرانے کے لڑکوں کو فلموں سے دور رہنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچپن میں تصویر لینے کے ان کے تجربے نے انہیں تصویر کی دنیا کی جانب راغب کیا جس میں تصویر کھنچوانے کے لیے تیار ہونا، اچھے لباس پہننا، پوز کرنا وغیرہ شامل تھے۔

انہوں نے لکھا کہ ان کے گھر میں فلم دیکھنے کی اجازت نہیں تھی اور اگر اجازت تھی بھی تو صرف دلیپ کمار کی فلمیں دیکھنے کی جن کے ساتھ بعد میں انہوں نے فلم کرما میں کام کیا۔

نصیر الدین شاہ نے سائرہ بانو اور راجندر کمار کی 1967 فلم ’امن‘ میں ایک چھوٹے سے کردار سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔ اس وقت ان کی عمر کوئی سولہ سترہ سال تھی۔

لیکن پھر 1975 میں آنے والی فلم ’نشانت‘ اور اس کے اگلے سال آنے والی فلم ’منتھن‘ نے انہیں متوازی سنیما کے اہم اداکار کے طور پر متعارف کرایا اور مقبولیت بخشی۔

ششی کپور کی فلم ’جنون‘ میں انہیں پہلی بار بہترین معاون اداکار کے لیے نامزد کیا گیا۔

اس سے قبل فلم ’سپرش‘ کے لیے انہیں بہترین اداکار کے قومی ایوارڈ سے نوازا گيا۔ اس فلم میں انہوں نے اندھے شخص کا جذباتی کردار ادا کیا ہے۔

نصیر الدین شاہ نے سائرہ بانو اور راجندر کمار کی 1967 فلم ’امن‘ میں ایک چھوٹے سے کردار سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا (فائل فوٹو: سکرول اِن)

سنہ 1981، 1982 اور 1984 انہیں تین سال بہترین اداکاری کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پہلے ’آکروش‘ کے لیے جس میں ان کے ساتھ ان کے دوست اوم پوری اور امریش پوری تھے اور یہ فلم ایک قانونی داؤ پیچ پر مبنی فلم تھی۔

اس کے بعد انہیں ’چکر‘ کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا جس میں ان کے ساتھ سمیتا پاٹل تھیں۔ اگلے سال فلم ’بازار‘ میں اداکاری کے لیے انہیں نامزد تو کیا گیا لیکن یہ ایوارڈ نہ ملا لیکن پھر اگلے سال فلم ’معصوم‘ آئی جو کہ ایرک سیگال کی ناول ’مین وومن اینڈ چائلڈ‘ پر مبنی تھی۔

انہیں فلم ’پار‘ کے لیے بہترین اداکاری کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس فلم میں انہوں نے سمیتا پاٹل کے ساتھ ایک دلت کا کردار ادا کیا ہے۔ اس فلم کو ان کی مذکورہ فلموں کے ساتھ میل کا پتھر قرار دیا جاتا ہے۔

’غالب‘ فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں نصیر الدین شاہ نے مرزا غالب کو اپنے اندر سمو لیا ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

لیکن انہیں سب سے زیادہ یاد ’جانے بھی دو یارو‘ کے لیے کیا جاتا ہے۔ وہ کمرشل فلموں میں ’مالامال‘ میں نظر آئے جس میں ان کے کرکٹ کے شوق کی جھلک بھی ملتی ہے۔

دلیپ کمار کے ساتھ فلم کرما میں، شاہ رخ خان کے ساتھ ’چمتکار‘ میں، ’غلامی‘ میں دھرمیندر کے ساتھ، ’وشواتما‘ میں سنی دیول کے ساتھ، ’سرفروش‘ میں عامر خان کے ساتھ اور ’اے وینسڈے‘ میں انوپم کھیر کے ساتھ نظر آئے۔

سرفروش میں منفی کردار ادا کرنے کے لیے انہیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گيا جبکہ ’اقبال‘ فلم میں کرکٹ کوچ کے کردار کے لیے انہیں بہترین معاون اداکار کے انعام سے نوازا گيا۔

ٹی وی کے پردے پر انہوں نے مرزا غالب کی جو اداکاری کی ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مرزا غالب کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔

لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا تمام فلموں میں لب و لہجہ ایک ہی جیسا ہے اور اس میں قدرت اردو کی آمیزش سے آتی ہے جسے لوگ پرتاثیر پاتے ہیں اور یوں نصیر الدین شاہ زبان اور آواز کے بل بوتے اپنی اداکاری کا لوہا منواتے ہیں۔

سرفروش میں منفی کردار ادا کرنے کے لیے نصیر الدین شاہ کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گيا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب

نصیر الدین شاہ اور اوم پوری کی دوستی بہت مشہور ہے کیونکہ دونوں نے ایک زمانہ ساتھ گزارا اور بہت سی فلموں میں ساتھ آئے۔

نصیرالدین شاہ نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ کس طرح وہ اوم پوری کے مقروض ہیں جنہوں نے انہیں نئی زندگی دی۔

انہوں نے لکھا کہ 1977 میں وہ فلم ’بھومیکا‘ کی شوٹنگ کر کے ایک ریستوران میں پہنچے تھے جہاں ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آيا۔ انہوں نے لکھا کہ جب وہ اور اوم پوری کھانا کھا رہے تھے تو ان کے ایک شنانا جسپال وہاں آئے۔

’ہم نے ایک دوسرے کو نظرانداز کیا لیکن ان کی نظریں مجھ پر جمی رہی، وہ میرے پیچھے ایک اور میز پر بیٹھنے کے لیے میرے پاس سے گزرے۔‘

’تھوڑی دیر بعد، مجھے اس کی موجودگی کا پتا چلا جب میری پیٹھ کے بیچ میں کوئی چیز تیزی سے چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھتا، اوم نے ایک چیخ کے ساتھ میرے پیچھے کسی پر جست لگائی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں جسپال اور اس نے ایک چھوٹا سا چاقو ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا، اور اس نے دوبارہ وار کرنے کے لیے اٹھا رکھا تھا۔‘

پھر اس کے بعد اوم پوری انہیں ہسپتال لے گئے جہاں سے وہ صحت یاب ہو کر واپس آئے۔

نصیر الدین شاہ اور اوم پوری کی دوستی بہت مشہور ہے کیونکہ دونوں نے ایک زمانہ ساتھ گزارا اور بہت سی فلموں میں ساتھ آئے (فائل فوٹو: ریڈِٹ)

نصیر الدین شاہ اپنے ساتھی اداکار انوپم کھیر کو ’جوکر‘ کہا تھا اور ان کے ’خوشامد پسندانہ‘ مزاج کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر انہیں کافی ٹرول کیا گیا۔

راجیش کھنہ پر جب انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو ان کی بیٹی ٹوئنکل کھنہ نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد انہوں نے معافی مانگ لی تھی۔

اسی طرح ان دنوں جس طرح کی فلمیں بنائی جا رہی ہیں اس پر ان کی شدید تنقید بھی سامنے آتی رہتی ہے۔ اسی طرح ملک میں جاری ٹرولنگ، عدم رواداری اور مسلمانوں اور دلتوں کی لنچنگ کو انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

نصیر الدین شاہ نے ساتھی اداکارہ رتنا پاٹھک سے شادی کی اور ان سے انہیں دو بیٹے عماد اور ویوان اور ایک بیٹی حبہ شاہ ہیں۔

انہیں انڈیا کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات میں سے پدم شری اور پدم بھوشن مل چکے ہیں۔

مختصراً نصیرالدین شاہ کو ان کی متنوع شخصیت اور اداکاری کی صلاحیت کے لیے بڑے پیمانے پر سراہا جاتا ہے، خاص طور پر آرٹ فلموں اور مین سٹریم سنیما کے درمیان بغیر کسی تأمل کے منتقل ہونے کی ان کی صلاحیت کے لیے۔ اپنی بے باکی کے لیے بھی جانے جاتے ہیں اور کھل کر کسی بھی بات کو بولنے سے نہیں۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow