ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کراچی نے بیرونِ ملک سے درآمد کیے جانے والے سولر پینلز کے لیے کسٹم ویلیو میں کمی کر دی ہے۔اس حوالے سے جاری کردہ ویلیوایشن رولنگ کے مطابق سولر پینلز کی نئی کسٹم ویلیو 0.08 سے 0.09 ڈالر فی واٹ تک مقرر کی گئی ہے، جبکہ اس سے قبل یہ ویلیو 0.11 ڈالر فی واٹ تھی۔ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز ویلیوایشن کی اس رولنگ میں واضح کیا گیا ہے کہ انہیں متعدد درآمد کنندگان کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سولر پینلز کی کسٹم ویلیو کو عالمی قیمتوں کے تناظر میں دوبارہ متعین کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ویلیو میں کمی کی بنیادی وجہ عالمی مارکیٹ میں سولر پینلز کی قیمتوں میں نمایاں کمی کو قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد نئی ویلیوایشن کی گئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی کسٹم ویلیو کے اثرات جلد یا بدیر مقامی مارکیٹ پر ضرور مرتب ہوں گے، تاہم یہ کمی ان سولر پینلز پر لاگو ہوگی جو نئی ویلیو کے تحت درآمد کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ سٹاک پر اس کا فوری اثر نہیں پڑے گا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں کمی ممکن ہے۔یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے مالی سال 2025 کے بجٹ میں مقامی طور پر تیار ہونے والے سولر پینلز پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا ہے، جس کے برعکس درآمدی سولر پینلز کی ویلیو میں کمی مارکیٹ میں قیمتوں کو متوازن رکھنے کا باعث بن سکتی ہے۔ڈائریکٹوریٹ نے مزید کیا بتایا؟ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کراچی کی جانب سے جاری کردہ نئی کسٹمز ویلیو کے مطابق عالمی مارکیٹ میں رائج قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان اشیا کی ویلیو ازسرِ نو مقرر کی گئی ہے۔ اس حوالے سے جامع غور و خوض کیا گیا اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔نئی ویلیوایشن میں ڈائریکٹوریٹ نے واضح کیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں رائج قیمتوں اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔پاکستان سولر ایسوسی ایشن اور دیگر درخواست گزاروں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ کسٹم حکام بین الاقوامی قیمتوں کی روشنی میں نئی ویلیو مقرر کریں۔
پاکستان میں زیادہ تر سولر پینل چین سے درآمد کیے جاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ بینکوں کے ساتھ لیٹر آف کریڈٹ کھلوانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، کیونکہ ان کی ظاہر کردہ ٹرانزیکشن ویلیوز موجودہ کسٹم ویلیوز سے کم تھیں، جس کی وجہ سے کلیئرنس میں مسائل پیدا ہو رہے تھے۔
پاکستان میں زیادہ تر سولر پینل چین سے درآمد کیے جاتے ہیں، اسی لیے اردو نیوز نے چین میں سولر پینل کا کاروبار کرنے والے ماہر محمد عقیل اشرف سے رابطہ کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ کسٹمز ویلیو کم کرنے کی وجوہات کیا ہیں اور اس فیصلے کے مقامی مارکیٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔محمد عقیل اشرف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سولر پینل پر کسٹمز ویلیو کو تقریباً ایک سے دو سال بعد دوبارہ نظرثانی کے بعد کم کیا گیا ہے۔‘ ان کے مطابق چین میں بھی گذشتہ چھ ماہ کے دوران سولر پینلز کی قیمتوں میں واضح کمی آئی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ کسٹمز ویلیو میں وقتاً فوقتاً تبدیلی آتی رہنی چاہیے تاکہ قیمتیں عالمی مارکیٹ کے ساتھ ہم آہنگ رکھی جا سکیں۔انہوں نے قیمتوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی کہ اس وقت چین میں ٹیئر وَن سرٹیفکیشن حاصل کرنے والی کمپنیوں کی تعداد 60 کے قریب ہو چکی ہے، یعنی مارکیٹ میں کئی بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیاں آ چکی ہیں۔ جب پیداواری کمپنیاں زیادہ ہوں گی تو مارکیٹ میں سولر پینلز کی دستیابی بڑھے گی، اور اس سے قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔اُنہوں نے بتایا کہ یہی بنیادی وجہ ہے کہ کسٹمز حکام نے سولر پینلز کی درآمدی ویلیو کو کم کیا ہے۔ عموماً جب کسٹمز ویلیو پر نظرِثانی کی جاتی ہے تو وہ بڑھتی ہے، لیکن اس مرتبہ بین الاقوامی قیمتوں کے رجحان کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے کم کیا گیا ہے۔
عقیل اشرف کا کہنا تھا کہ ’تقریباً ایک ماہ بعد نئی ویلیو کے اثرات مارکیٹ میں ظاہر ہوں گے (فوٹو: نیکیی ایشیا)
کسٹمز ویلیو کیسے مقرر کی جاتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں محمد عقیل اشرف نے بتایا کہ ’ویلیو مقرر کرنے سے قبل کسٹمز حکام متعلقہ درآمد کنندگان (امپورٹرز) کو خطوط کے ذریعے موجودہ قیمتوں کی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک آزاد بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ اشیا کی کسٹمز ویلیو کیا ہونی چاہیے۔ اس عمل میں پچھلے ایک سال کے دوران کی گئی ٹرانزیکشنز کا ڈیٹا بھی دیکھا جاتا ہے تاکہ قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو مدِنظر رکھا جا سکے۔‘’اس کے علاوہ، کسٹمز حکام مینوفیکچررز اور سپلائرز سے بھی رابطہ کرتے ہیں تاکہ قیمتوں سے متعلق درست معلومات حاصل کی جا سکیں۔‘تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’نئی کسٹمز ویلیو کے اثرات فوری طور پر مقامی مارکیٹ میں ظاہر نہیں ہوں گے، کیونکہ اس وقت جو سولر پینل مارکیٹ میں موجود ہیں وہ پرانی درآمدی قیمتوں پر آئے ہیں۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’تقریباً ایک ماہ بعد نئی ویلیو کے اثرات مارکیٹ میں ظاہر ہوں گے اور قیمتوں میں کمی ممکن ہو سکے گی۔‘