15 لوگوں پر مشتمل اس خاندان کے فہد اسلام نے اپنی والدہ شاہدہ اسلام کا ہاتھ تھام کر انھیں بہتے ہوئے پانی کو پار کروانے کی کوشش کی تو اچانک انھیں اپنی بھابھی ڈاکٹر مشعل کی شیخ سنائی دی جو اپنے پانچ سالہ بیٹے کو بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
سوموار کی شام کو بابو سر ٹاپ کے قریب گھومنے والے سیاح اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ اگلے چند لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔ یہ مقام عام طور پر اس موسم میں سیاحوں سے بھرا ہوتا ہے لیکن موسم کے تیور بدل رہے تھے اور اچانک ایک سیلابی ریلہ آن پہنچا۔
لودھراں سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان بھی ان سیاحوں میں شامل تھا۔ تھک ویلی میں آنے والے اس سیلابی ریلے کو دیکھتے ہی یہ سب بھی جان بچانے کے لیے اپنی کوسٹر سے باہر نکلے۔
15 لوگوں پر مشتمل اس خاندان کے فہد اسلام نے اپنی والدہ شاہدہ اسلام کا ہاتھ تھام کر انھیں بہتے ہوئے پانی کو پار کروانے کی کوشش کی تو اچانک انھیں اپنی بھابھی ڈاکٹر مشعل کی چیخ سنائی دی جو اپنے پانچ سالہ بیٹے کو بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے بی بی سی کے لیے صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خاندان 13 سال بعد اکٹھا ہوا تھا جس میں فہد اسلام لودھراں کے نجی شاہدہ اسلام میڈیکل کالج کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’فہد نے اس موقع پر بھابھی اور بھتیجے کو بچانے کی کوشش کی لیکن پلک جھپکتے میں ہی تینوں پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ گئے۔‘ فہد اسلام اور ڈاکٹر مشعل ان پانچ افراد میں شامل ہیں جو بابو سر ٹاپ کے قریب تھک ویلی میں اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ پانچ سالہ ہادی لاپتہ ہیں۔ ڈاکٹر مشعل کے شوہر ڈاکٹر سعد اسلام بھی زخمی ہوئے۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمن کا کہنا تھا کہ کئی سال بعد فہد اسلام کی دو بیرون ملک مقیم بہنیں پاکستان آئیں تو مل کر سیاحت کے ارادے سے یہ خاندان سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب لودھراں سے سکردو کے لیے روانہ ہوا تھا۔
ان کے سفری انتظامات ڈاکٹر حفیظ الرحمان کے مطابق انھوں نے ہی کیے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جب اس واقعے کے بعد ان کی ڈاکٹر شاہدہ اسلام سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’سب لوگ کوسٹر سے نکلے تو ڈاکٹر مشعل اور ان کا بیٹا پیچھے رہ گئے اور جب فہد السلام ان کی مدد کے لیے بڑھے تو چند لمحوں میں وہ ہماری نظروں سے غائب ہو چکے تھے۔‘
ریسیکو 1122 ضلع چالاس کے ترجمان پختون ولی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سوموار کی شام ’تقریبا چار بجے کا وقت تھا جب بابو سر ٹاپ کے مقام پر جہاں پر سیاح تفریح کر رہے تھے اور گاڑیاں پارک تھیں، اچانک دونوں اطراف سے سیلابی ریلہ آیا۔‘
’اس سیلابی ریلے کی وجہ سے قریب ہی واقع نالے اور اس کے اطراف میں تیز بارش تھی۔‘ پختون ولی کے مطابق ’بارش کے بعد اچانک بہت تیز سیلابی ریلا آیا اور اطراف میں پھیل گیا۔ یہ اپنے ساتھ گاڑیوں اور مقامی لوگوں کو بہا کر لے گیا۔‘
عمر فاروق تھک ویلی کے ہی رہائشی ہیں جنھوں نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوموار کی سہ پہر تین بجے کے بعد وہ تھک ویلی کے مقام پر موٹر سائیکل پر جا رہے تھے کہ ’اچانک قریبی نالے سے خوفناک آوازیں آنا شروع ہوئیں جس میں بڑے بڑے پتھر اور لکڑیاں سیلابی ریلے میں بہہ کر آرہی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں تھوڑا اور آگے بڑا تو سارے کے مقام پر روڈ بند تھا اور سیاحوں سمیت مقامی لوگ زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ کچھ مقامی لوگ زخمیوں اور سیاحوں کی مدد کر رہے تھے اور ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی کوشش میں مصروف تھے۔‘
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ ’جب ہمیں اطلاع ملی کہ آگے ایک اور علاقے میں بڑی تباہی ہوئی ہے تو مجھ سمیت کچھ لوگ وہاں پہنچ گئے۔‘
’وہاں پر بھی گھر تباہ ہو چکے تھے۔ لودھراں کے ایک خاندان کے تین افراد لاپتا ہو چکے تھے۔ کچھ لوگ زخمی تھے جن کو محفوظ مقام پر پہنچایا گیا اور پھر جب پانی کم ہوا تو جہاں پر ان کی کوسٹر سیلابی ریلے کا شکار ہوئی تھی وہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مرد اور خاتون کی لاش ملی جو کہ اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر بچے کا کچھ پتا نہ چلا۔‘
گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے مطابق شدید بارش کے بعد کئی مقامات پر چھوٹے بڑے سیلابی ریلے آئے اور سب سے زیادہ شدید صورتحال بابو سر ٹاپ پر تھی جبکہ سکردو دیوسائی روڈ کے نالوں میں درمیانے اور بڑے درجے کا سیلاب تھا۔ تاہم جانی نقصان صرف بابو سر ٹاپ پر ہوا۔
گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مطابق دیوسائی روڈ پر سیلابی صورتحال پیدا ہونے کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد پھنس گئی جس میں کم از کم سو گاڑیاں شامل تھیں۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمانفیض اللہ فراق کے مطابق بابو سر ٹاپ کے قریب تھک ویلی میں پانچ لوگ ہلاک ہوئے جبکہ 15 لوگ اب تک لاپتہ ہیں۔ ان کے مطابق ناران اور سکردو میں کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔
’منگل کے روز کم از کم دو سو سیاحوں کو چلاس پہنچایا گیا۔ بابو سر ٹاپ کے دونوں اطراف میں روڈ کئی مقامات پر بند ہے جس کی وجہ سے ممکنہ طور 50 سے 70 لوگ مقامی لوگوں کے گھروں میں رہائش پزیر ہیں۔ علاقے میں نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے رابطوں میں شدید مُشکلات کا سامنا ہے۔‘
انتظامیہ کے مطابق جب پیر کی شام سیلابی ریلے نے بابو سر ٹاپ اور اس سے ملحقہ دیہات میں تباہی مچائی تو آٹھ کلومیٹر کے علاقے میں تباہی ہوئی جبکہ زیرو پوائنٹ یعنی چلاس شہر سے بابوسر ٹاپ تک کے 40 سے 45 کلومیٹر کے علاقے میں کل چھ مقامات متاثر ہوئے ہیں۔
ایسے میں گلگت بلتستان حکومت نے انتباہ جاری کیا ہے کہ شاہراہ قراقرم اور شاہراہ ناران بابوسر ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند ہیں اور مسافر اور سیاح اس وقت علاقے میں سفر سے گریز کریں۔
فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ شاہراہ ریشم مختلف مقامات پر بند تھی جس کو کھول دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جو سیاح چلاس میں ہیں انھیں روانہ کر دیا جائے گا جبکہ بابو سر ٹاپ روڈ کے علاوہ ناران روڈ، جو مختلف مقامات پر بند ہے، کی بحالی میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’شروع میں ہمارا اندازہ تھا کہ شاید تین کلومیٹر کی سڑک بابو سر ٹاپ پر متاثر ہوئی ہے مگر ہمارا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور تباہی کا دائرہ کار زیادہ بڑا ہے۔‘