گلگت بلتستان کے دنیور نالے میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث کم سے کم سات رضاکار ملبے تلے دب کر ہلاک ہوئے ہیں جبکہ تین زخمی ہیں۔
یہ واقعہ برفانی جھیل کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب کے دو دن بعد پیش آیا ہے جس کی وجہ سے اہم شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ پانی میں بہہ گیا تھا۔ ہنزہ کے قریب شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ دریا برد ہونے سے پاکستان اور چین کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔26 جون سے ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے پاکستان بھر میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔پیر کو گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مرمت شروع کرنے کے لیے انجینیئرز اور کارکنوں کو بھاری مشینری کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے۔حکام کے مطابق مقامی رضاکار سیلاب سے متاثرہ واٹر چینل کی بحالی کا کام کر رہے تھے جب ان پر مٹی کا تودہ گرا۔دریں اثنا، تباہ شدہ پہاڑی شاہراہ کے قریب کئی مٹی کے تودے گرنے سے دنیور اور قریبی علاقوں میں مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔مقامی پولیس افسر حسن علی نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا اور بے گھر ہونے والے افراد کو ضروری خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی گلبر خان نے ایک بیان میں تودے تلے دب جانے والے افراد کو ’کمیونٹی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہیرو‘ قرار دیا۔صدر آصف علی زرداری نے سانحے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے رضاکاروں کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔عالمی سائنسدانوں کے نیٹ ورک ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے 24 جون سے 23 جولائی تک بارشیں 10 فیصد سے 15 فیصد زیادہ تھیں۔ پاکستان دنیا کی گرین ہاؤس گیسوں کا ایک فیصد سے بھی کم پیدا کرتا ہے، لیکن تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اسے شدید موسم کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔2022 میں مون سون کے دوران موسلادھار بارشوں اور اور سیلاب کے باعث 1700 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔