احساسِ کمتری میں مبتلا اقلیتی برادری: ’تم بھی بڑے ہو کر جھاڑو ہی اٹھاؤ گے‘

حال ہی میں جاری ایمینسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ جاری ہوئی جس میں پاکستان میں سینیٹری ورکرز کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور ذات پات و مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
سینیٹری ورکرز
Getty Images
پاکستان میں صفائی کے پیشے سے منسلک اکثریت مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے: فائل فوٹو

’تمھارے ابا تو جمعدار (خاکروب) ہیں تم بھی بڑے ہو کر جھاڑو ہی اٹھاؤ گے۔ سکول آ کر ہمارا اور اپنا وقت کیوں برباد کرتے ہو۔‘

یہ الفاظ پاکستان میں مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کے ہیں جنھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سنائے۔ ان کے مطابق شناخت کے باعث ان کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی عرصہ دراز سے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے جس میں حالیہ برسوں میں مزید اضافہ سامنے آیا ہے۔

حال ہی میں جاری ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں پاکستان میں سینیٹری ورکرز کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور ذات پات و مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں سینیٹری ورکرز یا صفائی کے پیشے سے منسلک زیادہ تر افراد غیر مسلم ہیں جن میں سے اکثریت مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔

بی بی سی نے جن افراد سے بات کی ان کے مطابق مسلسل بُرے القاب سے پکارے جانے، اپنے برابر بیٹھنے کی جگہ نہ دینے، برتن الگ کرنے اور تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنے پر ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

تاہم وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی، کیسومل کھیل داس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین پاکستان اقلیتوں کے برابر کے حقوق دیتا ہے تاہم اس وقت سب سے بڑا مسئلہ خصوصاً مسیحی اور ہندو مذاہب کے افراد کو درپیش ہے اور وہ ان کی جبری طور پر مذہب کی تبدیلی اور شادیاں ہیں جس پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔

تو اقلیتوں کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ ان کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے اور اس کے تدارک کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس مضمون میں اسی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مگر اس سے پہلے جاوید مسیح (فرضی نام) اور جوزفین (فرضی نام) کی زندگی کے چند مزید واقعات شامل کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ روا رکھے جانے والے عمومی رویے اور اس کے اثرات کو سمجھنا آسان ہو۔

’خوف کے ماحول میں بڑے ہوئے‘

 ٹینشن
Getty Images

جوزفین کا دعویٰ ہے کہ ان کو مذہب کے حوالے سے نہ صرف زندگی کے تقریباً ہر مرحلے پر تعصب کا سامنا کرنا پڑا بلکہ آئے روز ان کو مذہب تبدیل کرنے کے مشورے دیے جاتے۔

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’مذہب کی جبری تبدیلی پر بہت لوگ راغب کرتے ہیں اور پھر اس کو شادی سے بھی جوڑتے ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ لڑکی کرسچین ہے ہم جو مرضی چاہے ڈیمانڈ کر سکتے ہیں۔‘

جوزفین نے اپنے بچپن میں پیش آنے والے انتہا پسندی کے کچھ واقعات اور ان کے اثرات بھی شیئر کیے۔

جوزفین کے مطابق ’جب شانتی نگر کا واقعہ ہوا اور لوگوں کے گھر جلائے گئے اس وقت میں چھوٹی تھی۔ ہمارے بڑے ہمیں بہت کھل کر نہیں بتاتے تھے لیکن ہم بچوں میں بہت خوف بیٹھ گیا کہ مسیحی برادری کے تمام افراد کو جلا دیا جائے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ایسے خوف کے ماحول میں بڑے ہوئ جس سے ہمارے ننھے ننھے دماغوں میں ڈر بیٹھ گیا‘۔

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’اسی خوف میں کئی بار لوگوں کے اصرار پر ہم نے کلمہ تک پڑھ لیا کہ ہمیں جان کے لالے پڑ گئے تھے۔‘

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’پاکستان میں مسیحی ہو کر مسیحی رہنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ یہاں 90 فیصد اچھے لوگ ہیں لیکن مٹھی بھر ایسے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا تاثر دنیا بھر میں خراب ہوا ہے۔‘

’بہت ساری چیزیں ہیں کہ ہم اس لیے بات نہیں کر پاتے کہ اگر ہم کسی کو جواب دیں گے تو ہم پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جائے گا۔‘

’متعصب رویوں سے سکول بدلنا پڑا‘

جوزفین نے اپنی بہن کو سکول میں مذہب کے باعث درپیش مسائل پر بات کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میری بہن سکول میں ٹاپر تھی اور لیکن متعصب رویوں کے باعث اسے سکول بدلنا پڑا۔ اسے مختلف القاب سے پکارتے، چھوٹی ہونے کے باوجود اسے سب سے پچھلی سیٹ پر بٹھایا جاتا، ملی نغموں کے مقابلے میں شامل نہ کرتے‘ عید ملن پارٹی میں اس کا مذاق اڑاتے اور اس کے ہاتھ سے کھانے پینے کی چیز تک نہ لیتے۔‘

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’میری بہن ذہانت کے باعث سکالرشپ ہولڈر تھی لیکن اس کو کلاس میں مذہب کی بنیاد پر اتنا زچ کیا گیا حتی کے ٹیچرز کی طرف سے بھی۔۔۔ پھر وہ بچی اتنی بددل ہوئی کہ اس نے کہا کہ وہ اب اس سکول نہیں جائے گی۔‘

’بچے ساتھ بیٹھنے سے منع کرتے تو استانی سب سے پیچھے بٹھا دیتیں‘

جاوید مسیح کے والد میونسپل میں خاکروب تھے اور اپنے بچے کو پڑھانا لکھانا چاہتے تھے۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’میں جب پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو سکول میں میرے علاوہ دو اور مسیحی بچے تھے۔ اسمبلی میں جب ہم تلاوت کے دوران خاموش رہتے تو بچے ہمارا مذاق اڑاتے اور استانی سے بھی ڈانٹ پڑتی۔ بچے ہمیں بھنگی کہہ کر چھیڑتے اور میں دور جا کے روتا۔‘

جاوید نے بتایا کہ ’سکول میں بچے ساتھ بیٹھنے سے منع کرتے تو استانی سب سے پیچھے بٹھا دیتیں۔ میں نے گھر بتایا تو امی ابا سمجھاتے کہ تم پڑھو گے تو اچھی نوکری کرو گے مگر سکول میں بچے مجھ سے دور بھاگتے۔‘

ان کے مطابق ’ہم تینوں مسیحی بچے سب کے لیے جیسے اچھوت تھے۔ مجھے باقی دو بچوں کا تو نہیں پتا لیکن میں سکول سے واپس آ کر گھنٹوں روتا۔ جب تلاوت نہ کرنے پر مذاق بننا اور استانی سے ڈانٹ کھانا روز کا معمول بنا تو میں نے پانچویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ دی۔‘

’مذہب کی جبری تبدیلی سب سے بڑا چیلینج‘

جبری شادیوں پر احتجاج
BBC
پاکستان کی ہندو اور مسیحی اقلیتی برادریاں اپنی لڑکیوں کے مذہب کی جبری تبدیلی کی شکایت ایک طویل عرصے سے کرتی آ رہی ہیں

پاکستان میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو یوں تو آئین کی رو سے برابر کے حقوق حاصل ہیں لیکن جب زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو صورت حال برعکس دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کس قانون سازی کی فوری ضرورت ہے؟

اس سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کیسومل کھیل داس نےنے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ خصوصا ہندی اور مسیحی برادری کو مذہب کی جبری تبدیلی اور زبردستی کی شادیاں ہیں جس پر بلاتاخیر قانون سازی کی ضرورت ہے۔

کیسومل کھیل داس کہتے ہیں کہ ’جبری طور سے مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے 2019 میں جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی عمل میں لائی گئی پھر کمیٹی بے نتیجہ ختم ہو گئی۔‘

ان کے مطابق ’سندھ میں اس حوالے سے قانون سازی کی گئی تاہم اس بل کو متنازع بنا کر واپس کر دیا گیا۔ جب اسلام جبر کی اجازت نہیں دیتا تو پھر جبر کسی بھی چیز میں نہیں ہونا چاہیے۔‘

کیسومل کھیل داس کے مطابق ’موجودہ حکومت کی اقلیتوں کے حوالے سے قانون سازی ’نیشنل ماینوریٹی کمیشن‘ کے قیام کے لیے بل کا لانا ہے جو منظوری کے لیے تین ماہ سے صدر پاکستان کے پاس موجود ہے۔‘

دوسری جانب اسی حوالے سے جب سابق وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور جے سالک سے بات کی گئی تو ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں اب تک یہ طے نہیں کیا گیا کہ اقلیتوں کو کن بنیادوں پر اسمبلی میں لایا جائے۔‘

ان کے مطابق ’اقلیتوں کے لیے پانچ فیصد کوٹہ برابری کے حقوق کی نفی کرتا ہے۔ قانون سازی تب ہی ہوتی ہے جب اسمبلی میں نمائندگی ہو، جس کا حق تاحال نہیں ۔ اقلیتی امور کی نمائندگی صوبوں کو دے دی گئی ہے جس کا نام بھی تبدیل کر کے وزارت انسانی حقوق رکھ دیا گیا ہے۔‘

بُرے القاب اور بدسلوکی کے شخصیت پر اثرات

بُرے القاب اور بدسلوکی کے شخصیت پر اثرات
Getty Images

جب مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تعصب برتا جائے یہ کسی بھی فرد کی شخصیت پر کس طرح انداز ہوتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ماہر نفسیات طاہرہ جاوید نے بتایا کہ ’مذہب کی بنیاد پر تعصب برتنے سے متاثرہ شخص میں سب سے پہلے احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور دوسروں ے ساتھ موازنہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم اقلیتوں کے حقوق سلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے، تمھارے برتن ہم سے الگ ہیں، تم کمتر ہو تو اس سے نہ صرف متاثرہ فرد میں نفرت اور غصہ یہاں تک کے اشتعال انگیز جزبات تک پروان چڑھنے لگتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’متاثرہ شخص اپنی پہچان پر سوال اٹھانا شروع کر دیتا ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے اور کیا ہم غلط ہیں اور جو تعصب برت رہے ہوتے ہیں ان کے مذہب کے حوالےسے بھی متاثرہ فرد کے اندر منفی سوچ پنپنے لگتی ہے۔‘

طاہرہ جاوید کے مطابق ’اگر ہم اقلیتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے تو ان کے ذہن میں آپ کے مذہب کے بارے میں نفرت اور منفی جذبات آسکتے ہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ جب بطور کمیونٹی کسی اقلیت کو انتہا پسندی یا تعصب پر مبنی رویوں کا نشانہ بنایا جائے تو بچوں اور نوعمروں کی شخصیت کے اندر کس قسم کی تبدیلی آ سکتی ہے؟

ماہر نفسیات طاہرہ جاوید نے کہا کہ ’ان کے اندر طویل المدت منفی اثرات آسکتے ہیں۔ جہاں اقلیتی کمیونٹی کے بڑے حصے کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں ان کے بچے ٹراما کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا اعتماد اور بھروسہ ہمیشہ کے لیے اٹھ جاتا ہے اور ان میں تناؤ آ جاتا ہے۔‘

ایسے رویوں سے سوشل بیلینس ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اقلیت معاشرے کا حصہ ہیں اور ایسے رویے ان کی کام کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ’بدقسمتی سے ہم سینیٹری ورکرز اور اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کو عموماً اس طرح ڈیل کرتے ہیں کہ ان کی عزت نفس مجروح ہو جاتی ہے اور وہ ڈپریشن خوف اور تناؤ کا شکار ہبونے لگتے ہیں جس سے ان کی نوکری پر پرفارمنس متاثر ہوتی ہے۔ وہ بالکل تنہا محسوس کر رہے ہوتے ہیں لہذا ہمیں ان کو ڈیل کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا چاہیے۔‘

جاوید مسیح تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ اب وہ بطور سینیٹری ورکر کام کرتے اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان کے مطابق بچین کے برے رویوں کے باعث وہ نئے دوست بنانے میں اب تک ہچکچاتے ہیں تاہم ان کی خواہش ہے کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں اور معاشرے کے منفی رویوں کا شکارنہ ہوں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US