دلی سے دوری اور اسلام آباد سے قربت: ’پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک غیر روایتی امریکی صدر سے پڑا ہے‘

پاکستان اور امریکہ تعلقات میں حالیہ گرمجوشی اور فیلڈ مارشل کے تواتر کے ساتھ امریکہ کے دوروں پر پاکستان میں یہ سوالات زبان زدِعام ہیں کہ آخر دونوں ممالک کے تعلقات میں اچانک بہتری کی کیا وجہ ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان مئی میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد امریکہ کی انڈیا کی طرف خارجہ پالیسی کے رویے میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے متعدد بار دونوں ممالک کے رہنماؤں کی تعریف کی مگر ماہرین کی نظر میں انڈیا کے لیے سب اچھا نظر نہیں آ رہا ہے۔

امریکہ نے انڈیا سے آنے والی اشیا پر 50 فیصد ٹیرف بھی عائد کر دیا ہے اور اس کی وجہ انڈیا کی طرف سے روسی تیل کی خریداری کو قرار دیا ہے۔

بات یہیں نہیں رکی بلکہ اس عرصے میں پاکستان کی امریکہ سے قربت میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا۔ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ پاکستان کے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر چند ہفتوں میں دو بار امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ پاکستان نے امریکی صدر کو انڈیا سے جنگ بندی کا ناصرف پورا پورا کریڈٹ دیا بلکہ صدر ٹرمپ کا نام نوبل انعام کے لیے بھی تجویز کیا۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ڈیڑھ ماہ کے دوران اپنے دوسرے دورۂ امریکہ کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ’ایک نئے دور‘ کی جہت قرار دیا ہے۔ پہلے دورے میں اگر وہ امریکی صدر سے ملے تو دوسرے دورے میں ان کی امریکی عسکری حکام سے ملاقاتیں ہوئیں۔

پاکستانی فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف نے اپنے دوسرے دورۂ امریکہ کے دوران فلوریڈا میں امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں شرکت کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل نے دو روزہ دورے کے دوران اعلیٰ امریکی سیاسی اور فوجی حکام سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ جبکہ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی سے بھی اُن کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

اس سے قبل فیلڈ مارشل جون میں پانچ روزہ سرکاری دورے پر امریکہ گئے تھے۔ جہاں اُن کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ظہرانے پر ملاقات ہوئی تھی۔جنرل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات کی تصاویر یا پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی تھیں لیکن بعد ازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مختلف مواقع پر عاصم منیر کی تعریف کی۔

’پاکستان کی بہترین سفارتکاری‘

پاکستان کے سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کے مطابق فلوریڈا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے کہا کہ پاکستان کی بہترین سفارت کی وجہ سے آج دنیا پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کر رہی ہے۔

آرمی چیف نے مئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑائی، کشمیر اور پاکستان۔امریکہ تعلقات پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔

پاکستان اور امریکہ تعلقات میں حالیہ گرمجوشی اور فیلڈ مارشل کے تواتر کے ساتھ امریکہ کے دوروں پر پاکستان میں یہ سوالات زبان زدِعام ہیں کہ آخر دونوں ممالک کے تعلقات میں اچانک بہتری کی کیا وجہ ہے؟

بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ چوں کہ امریکی صدر ٹیرف کے معاملے پر انڈیا سے ناراض ہیں اسی لیے وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دے رہے ہیں۔

ماضی پر نظر دوڑائیں تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا دارومدار خطے میں امریکی مفادات سے منسلک رہا ہے۔ امریکہ کو جب جب پاکستان کی ضرورت پڑتی رہی، دونوں ملکوں کے تعلقات اُستوار ہوتے رہے۔

بظاہر اِس وقت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کی قربتوں کی کیا وجہ ہے؟

ان سوالات پر غور سے قبل ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ پر نظر دوڑاتے ہیں۔

مودی، ٹرمپ
Getty Images

افغان جنگ اور نائن الیون

یوں تو عالمی سیاسی منظر نامے اور خطے میں امریکی مفادات کے تناظر میں امریکہ کے لیے پاکستان اہمیت اختیار کرتا رہا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں بداعتمادی کا عنصر بھی نمایاں رہا ہے۔

یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے جنھوں نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں پاکستان پر ’ڈبل گیم‘ کے الزامات عائد کرتے ہوئے اس کی فوجی امداد بند کر دی تھی۔

ستر کی دہائی میں افغانستان میں روس کی چڑھائی کے بعد کے حالات ہوں یا نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ۔۔۔ یہ دو مواقع تھے جب پاکستان، امریکہ کا اہم اتحادی بن کر سامنے آیا۔

اس دوران پالیسی ایشوز پر دونوں ممالک کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ بھی آتا رہا یعنی کبھی گرمجوشی تو کبھی سرد مہری۔

نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنا تو امریکہ نے افغانستان میں کارروائی کے لیے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی اور نان نیٹو اتحادی جیسے خطابات دے کر یہاں فوجی اڈے تک بھی استعمال کیے۔

فیلڈ مارشل
Getty Images
فیلڈ مارشل عاصم منیر کو امریکہ میں پروٹوکول دینے پر انڈیا میں بعض حلقے تنقید کر رہے ہیں۔

تعلقات میں سرد مہری

ماہرین کے مطابق 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خصوصی آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی خراب ہو گئے تھے۔

دونوں ممالک کے تعلقات میں اس وقت بہتری کے آثار نظر آئے جب فروری 2020 میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے دوحہ معاہدے میں امریکہ نے پاکستان کے کردار کو سراہا۔

لیکن سنہ 2021 میں امریکہ میں جو بائیڈن کی حکومت آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات پھر سرد مہری کا شکار ہو گئے۔

بائیڈن کے دورِ صدارت میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلی سطح پر رابطوں کا بھی فقدان رہا اور اس دوران کسی پاکستانی وزیرِ اعظم کی صدر بائیڈن سے ملاقات تک نہ ہو سکی۔

عاصم منیر کا دورہ امریکہ
Getty Images
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دعویِ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری اچھی سفارت کاری کے باعث ممکن ہوئی ہے۔

لیکن اب تعلقات میں گرمجوشی کی وجہ کیا ہے؟

عالمی اُمور کے تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے ساتھ ساتھ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت سرمایہ کاری، تجارت اور ٹیکنالوجی میں تعاون کی بنیاد پر بھی استوار ہو رہی ہے۔

سینیئر صحافی اور عالمی اُمور کے تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’یہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر نے مارچ میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کی تعریف کی تھی۔‘

صدر ٹرمپ نے اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ پر ہونے والے دھماکے کے مبینہ منصوبہ سازوں میں سے ایک شریف اللہ کی گرفتاری میں مدد دینے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے وقت کابل ایئر پورٹ ایبی گیٹ پر ہونے والے دھماکے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد جون میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورۂ امریکہ میں انھیں بے مثال ’پروٹوکول‘ دیا گیا۔‘

جنرل عاصم منیر
Getty Images

اُن کے بقول ’فیلڈ مارشل کا دورہ بہت اہم وقت پر ہوا، کیوں کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کی کشیدگی چل رہی تھی۔ جبکہ اس سے قبل مئی میں انڈیا اور پاکستان کی لڑائی بھی ہوئی تھی جسے ختم کرانے کا کریڈٹ صدر ٹرمپ نے لیا تھا۔‘

زاہد حسین کے بقول ’انڈیا نے اس کی تائید نہیں کی تھی، لیکن پاکستان نے نے صدر ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے جنگ بند کرانے میں اُن کے کردار کو سراہا تھا۔‘

اُن کے بقول ’یہی وہ عوامل تھے جنھوں نے پاکستان اور امریکہ کو مزید قریب لانے کی راہ ہموار کی۔‘

سابق سفارت کار علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ ’فیلڈ مارشل کو سینٹ کام کی تقریب میں بلانا غیر معمولی ہے۔ اُن کے مطابق یہ ایک اعزاز کی بات ہے کیوں کہ چند ممالک کے ہی فوجی سربراہان کو اس تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔‘

دونوں ممالک ایک دوسرے کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟

علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ انڈیا نے دنیا کے کئی ممالک پر اضافی ٹیرف عائد کیے ہیں۔ لیکن پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کیے گئے ہیں۔ لہذا پاکستان اس سے فائدہ اُٹھا کر امریکہ کے لیے اپنی برآمدات بڑھا سکتا ہے۔

اُن کے بقول صدر ٹرمپ نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش میں مدد دیں گے اور اس حوالے سے ایک امریکی کمپنی کا تعین کیا جائے گا۔

علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ ’امریکہ پاکستان میں معدنیات کی تلاش کے ساتھ کرپٹو کرنسی میں بھی تعاون پر رضا مند ہے۔ لہذا یہ وہ معاملات ہیں جو آگے چل کر پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔‘

اُن کے بقول ’جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو امریکہ فی الحال انڈیا سے ناراض ہے اور اسے خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے کسی اور ملک کی ضرورت ہے اور اسی لیے وہ پاکستان کے قریب آ رہا ہے۔‘

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’ایران کے ساتھ معاملات میں بھی امریکہ، پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہے۔`

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’ایرانی صدر کے حالیہ دورۂ پاکستان سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار سے بات کی تھی۔ جبکہ دورہ مکمل ہونے کے بعد بھی دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔‘

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’صدر ٹرمپ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ایران کے معاملات کو سمجھتا ہے اور یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو یہ فائدہ نظر آتا ہے کہ پاکستان، امریکہ اور ایران کے درمیان مستقبل میں بھی پیغام رسانی کا کام کر سکتا ہے۔‘

عاصم منیر اور جنرل مائیکل کوریلا
Getty Images
امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائِیکل کوریلا نے پاکستان کے دورے پر بھی آئے تھے۔

’پاکستان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک غیر روایتی امریکی صدر سے پڑا ہے‘

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’صدر ٹرمپ سٹریٹجک تعلقات کے بجائے ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی بنیاد پر خارجہ پالیسی چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ اس کا واسطہ ایک ایسے امریکی صدر سے پڑا ہے جو غیر روایتی خارجہ پالیسی پر یقین رکھتے ہیں اور اُن کے مزاج میں مستقل مزاجی نہیں ہے۔‘

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’فیلڈ مارشل کے تواتر کے ساتھ امریکہ کے دوروں سے یہ عیاں ہو رہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ راولپنڈی اور پینٹاگان کے درمیان ہی رہے ہیں۔‘

اُن کے بقول ’پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے معاملے پر زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کسی بھی وقت اپنی پالیسی تبدیل کرتے رہے ہیں۔‘

امریکہ سے پاکستان کی ممکنہ توقعات پر بات کرتے ہوئے زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’پاکستان امریکہ سے یہ بھی توقع کرے گا کہ وہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مدد کرے۔‘

پاکستان آرمی
Getty Images

چین، دونوں ممالک کے تعلقات کو کس نظر سے دیکھے گا؟

کیا چین پاکستان اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی قربتوں پر اسلام آباد سے شکوہ کر سکتا ہے؟

اس سوال پر زاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان کی امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت الگ الگ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان چین کا اہم علاقائی شراکت دار ہے۔‘ان کے مطابق ’چین جانتا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت سدھارنے کے لیے دیگر ممالک پر بھی انحصار کرنا پڑ سکتا ہے تو ایسے میں اسے پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘

اُن کے بقول ’ٹرمپ کی چین پالیسی، بائیڈن انتظامیہ سے مشکل ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے خطے میں چین کا اثرو رسوخ کم کرنے کے لیے انڈیا کو زیادہ اہمیت دی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اس سے مختلف ہے اور وہ اس وقت انڈیا کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔‘

سابق سفارت کار علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور امریکہ تعلقات میں پاکستان کی پوزیشن کبھی نہیں بدلی۔‘

اُن کے بقول ’پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس پر دہشت گردی کے الزامات کے بجائے دنیا کو یہ ماننا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔‘

علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور چین کے تعلقات امریکہ کی وجہ سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ پاکستان، ماضی میں چین اور امریکہ کو قریب لانے میں مدد کرتا رہا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US