’برطانیہ جانے کے لیے ساری جمع پونجی گنوا دی‘، امیگریشن فراڈ کا شکار ہونے کے بعد کیا کریں؟

image
سال 2023 کے اختتام پر گجرخان کے رہائشی 44 برس کے راجہ عمران یاسر نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو ان کی زندگی میں نمایاں تبدیلیوں کی وجہ بنا۔

وہ پاکستان کو خیرباد کہہ کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ برطانیہ میں نئی زندگی شروع کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے اپنی زمین فروخت کی، فکسڈ ڈیپازٹ سے رقم نکلوائی اور دیارِ غیر جانے کے لیے کاغذی کارروائی کا آغاز کیا۔

انہوں نے اس سفر کی شروعات میں اپنے ایک جاننے والے طاہر احمد (فرضی نام) اور ان کی بیوی سعدیہ طاہر(فرضی نام) سے رابطہ کیا۔

 

دونوں برطانیہ میں مقیم تھے اور یو کے امیگریشن کے معاملات کا تجربہ رکھتے تھے۔ راجہ عمران یاسر نے اعتماد اور امید کے ساتھ ان سے درخواست کی کہ وہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو برطانیہ جانے میں مدد فراہم کریں۔

راجہ عمران یاسر نے معاملات طے پانے کے بعد ویزا کی قیمت کے طور پر 55 لاکھ روپے مختلف اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کر دیے۔ علاوہ ازیں، پاکستان میں مقامی سفارت خانے میں اپوائنٹمنٹ اور دیگر کاغذی کارروائی کے لیے تقریباً 10 لاکھ روپے مزید ادا کیے۔

طاہر احمد اور سعدیہ طاہر نے پُر اعتماد لہجے میں بتایا کہ ’ورک پرمٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے اور جلد ہی فیملی ویزا کے تحت انہیں برطانیہ بلا لیا جائے گا۔‘

وقت گزرتا گیا۔ ہر بار معلوم کرنے پر یہی پتہ چلتا کہ ’پراسس چل رہا ہے اور جلد تمام کارروائی مکمل ہو جائے گا۔‘

لیکن دو سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود برطانیہ جانے کا خواب خواب ہی رہا، اور راجہ عمران یاسر اور ان کی فیملی آج بھی اسی جگہ کھڑی ہے جہاں سے ان کا یہ امیدوں بھرا سفر شروع ہوا تھا۔

راجہ عمران یاسر کو جب اپنی جمع پونجی ڈوبتی ہوئی دکھائی دی تو انہوں نے ایف آئی اے سے رجوع کیا، جہاں سے انہیں معلوم ہوا کہ ’اس نام کے میاں بیوی تو متعدد دوسرے افراد کو برطانیہ بھیجنے کا جھانسا دے کر ان سے پیسے بٹور چکے ہیں۔‘

راجہ عمران یاسر نے اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اسلام آباد کو ایک درخواست دی ہے، جس میں انہوں نے دونوں میاں بیوی یعنی ملزموں کے خلاف کارروائی کی درخواست کی ہے۔

ایف آئی اے نے اس حوالے سے بیرونِ ملک مقیم میاں بیوی کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں اور تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ’ملزمان نے اگر ابتدائی نوٹسز کی بنیاد پر تعاون نہ کیا تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے انہیں بیرون ملک سے پاکستان منتقل کرنے سمیت دیگر قانونی کارروائی کرنے پر غور کیا جائے گا۔‘

متاثرہ شہری راجہ عمران یاسر نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’وہ دو سال سے پاکستان میں ایک قسم کے دربدر اور بے روزگار ہیں۔‘

انہوں نے اپنی تقریباً ساری جائیداد بیچ کر بیرونِ ملک جانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان کا اور ان کی فیملی کا مستقبل بہتر ہو ، تاہم اس واقعے کے بعد وہ شدید پریشانی اور دباؤ کا شکار ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ وہ اب پاکستان میں رہ سکیں گے یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’ان کے ساتھ فراڈ کرنے والے میاں بیوی میں سے عورت ان کی دور پار کی رشتے دار بھی ہے، اس لیے انہیں ان پر اعتماد تھا جس کی وجہ سے ہی انہوں نے اتنی بڑی رقم انہیں دی اور ورک ویزا کے ذریعے اپنی فیملی کو برطانیہ منتقل کرنے کا عمل ان کے حوالے کیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’بار بار اصرار کرنے پر ملزموں نے مجموعی رقم یعنی 70 لاکھ روپے میں سے کچھ رقم واپس کی، جو پاکستانی روپوں میں 26 سے 27 لاکھ روپے ہے، تاہم انہوں نے بقایا رقم سرِدست واپس نہیں کی۔‘

اردو نیوز نے اس حوالے سے امیگریشن کے ماہر میجر (ریٹائرڈ) بیرسٹر ساجد مجید سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ یورپ اور امریکا کے ویزوں میں اس قسم کے فراڈ کے امکانات کتنے ہوتے ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ ’کوئی شخص اگر آپ سے پاسپورٹ لے کر یہ کہے کہ وہ آپ کو برطانیہ، یورپ یا امریکا کا ویزا لے دے گا اور آپ سے رقم بھی طلب کرے، تو سمجھ لیں کہ آپ کے ساتھ فراڈ ہونے والا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کو ان ممالک میں وہی شخص سیٹل کروا سکتا ہے جس کے پاس حکومتِ پاکستان کا لائسنس ہو اور جو نوجوانوں اور پڑھے لکھے، ہنر مند افراد کو باہر بھیجنے کا کام کرتا ہو۔ ایسے پراسیس میں آپ خود انٹرویو دیتے ہیں، خود اپلائی کرتے ہیں اور میل وصول کرتے ہیں۔ یہی اصل اور درست طریقہ ہے، دوسری صورت میں یہ فراڈ کا معاملہ ہوتا ہے۔‘

بیرسٹر ساجد مجید کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کے پاس ایسے سینکڑوں کیسز ہیں جہاں بیرون ملک، بالخصوص یورپ، امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا سے آئے ہوئے افراد نے ویزا لیا اور پھر اس کی بنیاد پر درجنوں لوگوں سے پیسے بٹورے۔‘

’وہ کروڑوں روپے کا فراڈ کرتے ہیں اور چوںکہ بیرونِ ملک ہوتے ہیں تو اس لیے بعد میں ان سے رقم واپس لینا یا نکلوانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے اس فراڈ کا شکار ہونے والے شہریوں کو رقم واپس ملنے کے معاملے پر بتایا کہ ’اس صورتِ حال میں متاثرہ افراد کو نہ صرف پاکستان کی قانونی ایجنسیوں سے مدد لینی چاہیے بلکہ دوسرے ملک میں بھی کیس دائر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہاں کسی اچھے وکیل کے ذریعے کیس کیا جائے تو رقم کی واپسی کا امکان موجود ہوتا ہے، تاہم اس عمل میں متاثرہ شہری کو خاصا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شہریوں کو اگر اس طرح کی کوئی آفر ملے تو وہ یہ ضرور چیک کریں کہ کیا متعلقہ شخص اس ملک کا رجسٹرڈ ایچ آر ریکروٹر ہے، کیا اس کے پاس حکومتِ پاکستان کا کوئی لائسنس موجود ہے اور کیا اس فیلڈ میں اسے تجربہ حاصل ہے۔ ان تمام نکات کی تصدیق کرنے کے بعد ہی کسی پر اعتماد کرنا چاہیے۔‘


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US