بلاول بھٹو کے چھ دریا ’واپس لینے‘ کے بیان پر متھن چکرورتی کی ’براہموس چلانے‘ کی دھمکی

سابق پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے خبر دار کیا تھا کہ پاکستان ’چھ کے چھ دریا واپس حاصل کر سکتا ہے‘ جس پر انڈین سیاستدان اور اداکار متھن چکرورتی نے ’براہموس چلانے‘ کی دھمکی دی ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران کئی ماہ سے دونوں اطراف سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے مگر پاکستانی آرمی چیف کے دورۂ امریکہ کے بعد اس میں مزید تیزی آئی ہے۔

گذشتہ روز سابق پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے خبر دار کیا کہ پاکستان ’چھ کے چھ دریا واپس حاصل‘ کر سکتا ہے جس پر آج انڈین سیاستدان متھن چکرورتی نے ’براہموس چلانے‘ کی دھمکی دی ہے۔

اس سے قبل امریکہ میں پاکستانی آرمی چیف کے بیان پر نئی دہلی نے ردعمل دیا تھا جسے اسلام آباد نے ’بچگانہ‘ قرار دیا تھا۔

دونوں ملکوں نے مئی میں ایک دوسرے کے جنگی طیارے گرانے کا دعویٰ کر رکھا ہے اور ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرون حملوں کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔

بلاول کا بیان اور متھن کا ردعمل

پیر کے روز پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھٹ شاہ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کے 282ویں عرس میں شرکت کی۔ اس کے بعد ایک خطاب میں سابق پاکستانی وزیر خارجہ نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو ’خطے میں سندھو دریا پر سب سے بڑا حملہ‘ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ دریائے سندھ پر حملہ ’تہذیب اور ثقافت پر حملہ‘ ہے اور یہ کہ ’میں نے اس دریا کنارے اعلان کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ مودی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کروں گا۔ ہم نے انھیں بے نقاب کر دیا ہے۔‘

انھوں نے انڈین سیاستدانوں کی طرف سے پاکستان کا ’پانی روکنے کی دھمکی‘ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس کے خلاف دنیا بھر میں آواز اٹھائی جا رہی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’اس ملک کے عوام میں اتنی طاقت ہے کہ جنگ میں بھی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور چھ کے چھ دریا واپس حاصل بھی کر سکتے ہیں۔‘

’اگر یہ ہمیں مجبور کرتے ہیں۔۔۔ تو مودی سرکار کو بتانا چاہیں گے کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

بلاول نے کہا کہ اگر ’سندھو کی طرف ایسے حملے کے بارے میں سوچیں گے تو پھر پاکستان کے ہر صوبے کے عوام آپ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایسی جنگ ہے جو آپ ضرور ہاریں گے۔‘

اس کے جواب میں انڈیا میں حکمراں جماعت بی جے پی کے رہنما اور سابق بالی وڈ اداکار متھون چکربورتی نے کہا کہ ’پاکستان کے عوام جنگ نہیں چاہتے۔ اچھے لوگ ہیں۔ لیکن اگر ایسی باتیں کرتے رہیں گے کھوپڑی سنک گئی (دماغ گھوم گیا) تو ایک براہموس چلے گا، پھر دوسرا براہموس چلے گا۔‘

انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’اگر کچھ نہیں ہوا تو ہم نے سوچا ہے کہ ایک ڈیم بنائیں گے۔۔۔ ڈیم کھول دیں گے تو کوئی گولی نہیں چلے گی، سونامی آ جائے گا۔‘

جب متھن سے پوچھا گیا کہ ایٹمی حملے کی دھمکی دی گئی ہے تو انھوں نے کہا ’میں بول رہا ہوں سونامی آجائے گا۔‘

متھن نے پھر کہا کہ ’معافی چاہتا ہوں، پاکستان کے عوام کے ساتھ ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ بات میں نے صرف ان (پاکستانی قیادت) کے لیے کہی ہے۔‘

’پاکستانی آرمی چیف کی انڈیا کے خلاف دھمکی قابل مذمت ہے‘ اسد الدین اویسی

اس کے علاوہ انڈیا میں لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی نے پاکستانی آرمی چیف کی امریکہ میں تقریر پر سخت ردعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر مرکزی حکومت کو احتجاج کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا تھا کہ انڈیا کو ’اس کی جارحیت پر منھ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘

اسد الدین اویسی نے ایکس پر لکھا کہ ’پاکستانی آرمی چیف کی انڈیا کے خلاف دھمکی اور زبان قابل مذمت ہے۔‘

’یہ بات بھی سنگین ہے کہ انھوں نے یہ بیان امریکی سرزمین سے دیا۔ مودی حکومت کو وزارت خارجہ کے بیان سے آگے جانا چاہیے اور سیاسی جواب دینا چاہیے۔ حکومت کو احتجاج کرنا چاہیے اور یہ معاملہ امریکہ کے سامنے اٹھانا چاہیے۔‘

خیال رہے کہ انڈین وزارت خارجہ نے تشویش ظاہر کی تھی کہ پاکستانی آرمی چیف نے یہ بیان ایک ’تیسرے اور دوست ملک کی سرزمین سے دیا۔‘ جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے تشویش ظاہر کی تھی کہ اس معاملے میں بلا ضرورت امریکہ کو گھسیٹا جا رہا ہے۔

اسلام آباد کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ’ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔‘

ادھر نئی دہلی نے واضح کیا ہے کہ اسے ’ایٹمی حملے کے نام پر بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔‘

پاکستان کا ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم

رواں سال اپریل میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاحتی مقام پہلگام پر حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے ساتھ 1960 میں طے کیے گئے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا تھا۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان مئی میں فوجی لڑائی سے قبل کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔

انڈیا پہلگام حملے پر پاکستان کو قصوروار ٹھہراتا ہے مگر اسلام آباد اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

انڈیا، پاکستان، سندھ طاس معاہدہ، دریا
Getty Images
دریائے سندھ کا پانی انڈیا اور پاکستان دونوں میں بہتا ہے

پیر کو پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ عالمی ثالثی عدالت کا حالیہ فیصلہ ’مغربی دریاؤں (چناب، جہلم اور سندھ) پر انڈیا کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے نئے ’رن آف ریور‘ ہائیڈرو پاور منصوبوں کے لیے مقرر کردہ اصولوں کی وضاحت کرتا ہے۔‘

’عدالت نے قرار دیا ہے کہ انڈیا کو مغربی دریاؤں کے پانی کو پاکستان کے بلاروک ٹوک استعمال کے لیے ’بہنے دینا‘ ہوگا۔ اس ضمن میں پن بجلی منصوبوں کے لیے دیے گئے مخصوص استثنیٰ کو معاہدے میں طے کردہ شرائط کے عین مطابق ہونا چاہیے۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ ثالثی عدالت کے ایوارڈ میں انڈیا کو ’ذخیرہ شدہ پانی (پونڈیج) کی مقدار کو زیادہ سے زیادہ کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت نے مشاہدہ کیا ہے کہ ثالثی عدالت کے فیصلے فریقین (انڈیا اور پاکستان) پر حتمی اور لازم العمل ہوتے ہیں اور ان کا آئندہ ثالثی عدالتوں اور غیر جانبدار ماہرین پر قانونی اثر ہوتا ہے۔‘

نئی دہلی کی طرف سے اب تک اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔ مگر اس سے قبل ایک بیان میں انڈین وزارت خارجہ ثالثی عدالت کے ضمنی فیصلے کو نہ صرف مسترد کیا تھا بلکہ ثالثی عدالت کو ’غیر قانونی اور نام نہاد کورٹ آف آربٹریشن‘ قرار دیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ اس عدالت نے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق ایک ’اضافی ایوارڈ‘ جاری کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ’انڈیا نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کے وجود کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمارا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس نام نہاد ثالثی ادارے کی تشکیل بذات خود سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘

بیان کے مطابق ’اس کے نتیجے میں اس فورم کے سامنے کوئی بھی کارروائی اور اس کی جانب سے لیا گیا کوئی بھی فیصلہ غیر قانونی ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’پہلگام حملے کے بعد انڈیا نے بین الاقوامی قانون کے تحت ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو اس وقت تک معطل کیا ہے جب تک کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا اور اس وقت تک انڈیا اس معاہدے کے تحت اپنی کوئی ذمہ داری نبھانے کا پابند نہیں رہے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US