15 اگست یعنی جمعے کی صبح بشنوئی کے لوگ صبح سویرے اٹھے اور اپنے اپنے کام پر چلے گئے تھے۔ بچوں کے سکول جانے کے بعد خواتین گھروں کے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ یہ سب اس بات سے بے خبر تھے کہ اگلے لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔

چند روز پہلے تک بشنوئی سرسبز پہاڑوں میں گھرا خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کا ایک خوبصورت گاؤں تھا جس کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت ندی بہتی تھی۔ اس ندی کے ساتھ مکان تھے۔
15 اگست یعنی جمعے کی صبح بشنوئی کے لوگ صبح سویرے اٹھے اور اپنے اپنے کام پر چلے گئے تھے۔ بچوں کے سکول جانے کے بعد خواتین گھروں کے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔
یہ سب اس بات سے بے خبر تھے کہ اگلے لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔ اس صبح شدید بارش ہوئی۔ مقامی لوگوں کے مطابق اچانک پانی کا ایسا ریلا آیا جو ’اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر لایا اور راستے میں آنے والی عمارتیں ملیا میٹ کرتا ہوا آنا فانا پورا گاؤں تباہ کر گیا۔‘
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مختلف حادثات میں اب تک کم از کم 314 افراد ہلاک اور 156زخمی ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر میں 217 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بی بی سی کی ٹیم نے بشنوئی کا دورہ کر کے صورت حال دیکھی جہاں بادل پھٹنے اور سیلابی ریلوں سے ہونے والی تباہی نے سینکڑوں افراد کی جان لے لی۔ مقامی لوگ اب تک شدید صدمے میں ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق اچانک پانی کا ایسا ریلا آیا جو ’اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر لایا‘ہم اس علاقے میں پہنچے تو اکثر لوگ ہی بشنوئی گاؤں کی طرف روانہ تھے۔
ہم پیر بابا بازار سے نکلے تو چند منٹ کے بعد گاؤں کی ایک سڑک سے گزر رہے تھے جہاں ہر طرف ہریالی تھی اور مکئی کے پودے پھل دینے کو تیار تھے۔ آس پاس باغات تھے۔
تھوڑی دور آگے گئے تو بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ہم اسی راستے پر پیدل روانہ ہوئے۔
ایک فرلانگ کا فاصلہ طے کیا کہ دائیں جانب نظر گئی توسخت حیرانی ہوئی کہ یہاں پتھر کہاں سے آئے۔ بشنوئی گاؤں میں بڑے بڑے پتھر، کنرکیٹ کے بلاکس اور جڑوں سے اکھڑے ہوئے درخت نظر آئے۔
گاؤں میں داخل ہوئے تو وہاں ہر شخص ہی پتھروں کو دیکھ دیکھ کر گزر رہا تھا جبکہ ٹولیوں کی شکل میں ریسکیو اہلکار اور مقامی لوگ جگہ جگہ پتھر ہٹانے کے کام مصروف تھے۔
ٹولیوں کی شکل میں ریسکیو اہلکار اور مقامی لوگ جگہ جگہ پتھر ہٹانے کے کام مصروف تھےان کے پاس کوئی بھاری مشینری نہیں تھی۔ چھوٹے بڑے اوزاروں سے ہی یہ لوگ پتھر ہٹانے کے کام میں لگے ہوئے تھے۔ گاؤں کے درمیان بہنے والی ندی کے دونوں جانب بڑے بڑے پتھر تھے۔
ایک مقامی شخص اسرار خان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ یہاں ’ہر پتھر کے نیچے ایک مکان ہے۔ یہ پتھر یہاں نہیں تھے۔‘
ان کے مطابق ’جمعہ کے روز جو آسمانی بجلی اوپر پہاڑ پر گری اور پھر وہاں بادل پھٹے تو پانی کا ریلا یہ پتھر بھی بہا لایا۔‘
انھوں نے ’تندر‘ کا لفظ استعمال کیا جو ممکنہ طور پر بجلی کی کڑک اور شدید بارش کی نشاندہی کر رہا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’لوگ ان پتھروں کے نیچے جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید وہ کسی کو تلاش کر لیں۔‘
’آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ زمین پر چل رہے ہیں۔ یہ اس وقت آپ کسی مکان کی دوسری چھت اور کسی مکان کی تیسری منزل پر کھڑے ہیں۔ مکان تو نیچے دب گئے ہیں۔ یہ پتھر اور چٹانیں یہاں کی نہیں ہیں۔‘ یہ کہہ کر اسرار خان آگے روانہ ہوگئے۔
مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ اس گاؤں میں 80 سے 90 گھر تھے جن میں سے بیشتر کا روزگار کھیتی باڑی سے منسلک تھا۔
اس سیلاب میں ایک اندازے کے مطابق 50 فیصد مکان مکمل تباہ ہو گئے ہیں جبکہ باقی مکان بھی اب رہنے کے قابل نہیں ہیں۔
مندہم دکانیں، تباہ حال گاڑیاں
مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ اس گاؤں میں 80 سے 90 گھر تھےسیلاب اور بارش سے متاثرہ علاقوں کی جانب اہم شخصیات کا آنا جانا بھی لگا ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہرسمیت دیگر شخصیات کی آمد و رفت جاری تھی۔
سواڑی سے پیر بابا بازار کی طرف جیسے ہی روانہ ہوئے تو دائیں بائیں فصلیں اوندھے منہ پڑی تھیں۔ درخت جڑوں سے اکھڑے ہوئے تھے، گاڑیاں تباہ حال تھیں جو کہیں کیچڑ میں دھنسی ہوئی تو کہیں دیواروں میں اٹکی ہوئی نظر آئیں۔
تھوڑی دور ہی گئے تھے تو پیر بابا بازار آیا۔ یہاں تو کچھ اور ہی تصویر نظر آ رہی تھی۔
پانی کی شدت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ بازار میں پانی تیسری منزل تک پہنچ گیا تھا۔ کچھ دکانیں منہدم ہو چکی تھیں۔ چینی کی بوریاں مٹی میں لت پت نظر آئیں۔ خواتین کے کپڑوں کا سامان بھی کیچڑ میں پڑا تھا اور ان کے اوپر سے گاڑیاں گزر رہی تھیں۔
دکانداروں نے اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر رکھا تھا۔ وہ دکانوں سے کیچڑ اور پانی نکال رہے تھے۔
پیر بابا کے مزار کا علاقہ بھی اس تباہی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
’پانی بہت تیز تھا، اسے کسی پر رحم نہیں آیا‘

بشنوئی گاؤں میں الخدمت اور دیگر امدادی ادارے متحرک نظر آئے۔ لوگوں میں سامان تقسیم کیا جا رہا تھا اور میڈیکل کیمپ قائم تھا۔
بشنوئی گاؤں کے وسط میں کھڑے ہو کر دیکھا تو سامنے پہاڑ پر ہر طرف ہریالی تھی ۔
مقامی شخص اسرار خان نے بتایا کہ ’اس ہریالی کے درمیان دیکھیں تو دور سے ایک خشک جگہ نظر آ رہی ہے، تندر یہاں گرا تھا اور یہ تندر اتنی خاموشی سے گرا کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا ہوا ہے۔‘
اسرار خان ہمارے ساتھ چلتے ہوئے اس گاؤں کی تصویر کشی بھی کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ صرف اس گاؤں کے اب تک 27 افراد لاپتہ ہیں اور ان کی تلاش کا کام جاری ہے ۔
جب ان سے پوچھا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا تو انھوں نے ایک گہری سانس لی اور بولے کہ ’یہ سب کچھ میری نظروں کے سامنے ہوا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میرا ایک بھائی سامنے عمارت کے پیچھے واقع ایک گاؤں طوطی ڈھیرئی میں پرائمری سکول میں استاد ہے۔‘
’انھوں نے جب پہاڑ پر تندر گرتے دیکھا تو چپل پہنے بغیر اپنے گاؤں کی طرف بھاگا اور چیح چیخ کر کہتا آیا نکلو گھروں سے نکلو فورا نکلو اور اس کے لیے وہ راستے میں لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر جھنجھوڑ رہا تھا وہ اتنا چلایا کہ اس کا گلہ بیٹھ گیا تھا۔‘
انھوں نے ایک ہی سانس میں یہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس نے اور دیگر لوگوں نے کچھ لوگوں کو بچا لیا لیکن ’پانی بہت تیز تھا اسے کسی پر رحم نہیں آیا۔‘
وہاں موجود لو گوں نے بتایا کہ یہاں چھوٹے چھوٹے دیہات ہیں۔ کہیں 20-30 گھرانے ہیں تو کہیں 50 یا ساٹھ گھرانے۔ بارشوں اور سیلابی ریلے نے لگ بھگ سب کو متاثر کیا ہے۔
’کچھ کی لاشیں ملیں اور کچھ کی تلاش جاری‘

ایک شخص میرے قریب آیا اور کہا ’یہ سامنے مکان دیکھ رہے ہیں۔‘
ہم نے بغور دیکھا لیکن وہاں کوئی مکان نہیں تھا۔ ہمارے کہنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ بنیاد نظر آ رہی ہے یہاں ایک ہی گھر میں جوائنٹ فیملی کے طور پر کوئی 20 افراد رہتے تھے۔
’ان میں سے 18 افراد اب نہیں رہے۔ کچھ کی لاشیں ملی ہیں اور کچھ کی تلاش جاری ہے۔ دو افراد زندہ بچ گئے ہیں۔‘
میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ’انھیں تو ہوش ہی نہیں ہے ان کی سمجھ بوجھ کام نہیں کر رہی۔ اگر کوئی بات پوچھتا ہے تو رونے لگ جاتے ہیں۔‘
ساتھ کھڑے ایک شخص شیرزمان نے بتایا کہ ایک اور مکان جس میں شادی کی تیاریاں جاری تھیں وہاں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔
ہم اس گاؤں میں صبح سے دوپہر تک رہے لوگوں سے بات چیت کی، اتنے میں دو نوجوان ایک پتھر پر آ کر بیٹھ گئے جن کے پاؤں کیچڑ سے اٹے پڑے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ لوئر دیر سے آئے ہیں اور ’مقصد صرف یہاں لوگوں کی مدد کرنا تھا۔‘
اس مقام پر دور دراز علاقوں سے لوگ مقامی لوگوں کی مدد کے لیے آئے تھے۔ گاؤں میں ریسکیو اور دیگر اداروں کے ساتھ فوجی اہلکار بھی بحالی کے کاموں میں مصروف تھے جبکہ بھاری مشینری بھی پہنچ رہی تھی۔