جب بھی ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کی 75 برس کی ایک خاتون کسی کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں تو اکثر انہیں ایک دلچسپ صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ علاقے کے بچے انہیں آفریدی لہجے میں ’امریکے، امریکے‘ کہہ کر پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔کبھی وہ مسکرا دیتی ہیں تو کبھی بچوں کو پیار سے ڈانٹ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ وہ ایک عام گھریلو خاتون ہیں لیکن اپنے گاؤں تالاب غاڑہ ولی بابا میں وہ عام نہیں بلکہ بہت خاص ہیں اور انہیں عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے اور وہ ایک بااثر اور مضبوط شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہے۔وہ تعلیم یافتہ نہیں لیکن ان کے بولنے کا انداز، ان کا جرات مندانہ رویہ اور مسائل پر کھل کر بات کرنے کی صلاحیت نے ’امریکہ بی بی‘ کو پورے علاقے میں نمایاں مقام دیا ہے۔اس صحافی نے 12 برس قبل بھی امریکہ بی بی سے بات کی تھی جب وہ اس قبائلی علاقے کی سڑکوں پر بھرپور احتجاج کرتی تھیں اور غیرسرکاری اداروں کی تربیتی ورکشاپس میں بھی شامل ہوتی تھیں۔خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کی زیادہ تر خواتین چار دیواری تک محدود رہتی ہیں اور کم ہی منظر پر آتی ہیں لیکن تقریباً 20 برس قبل امریکہ بی بی اس روایت کو اس وقت توڑتی نظر آئیں جب انہیں پانی اور بجلی کے مسائل پر احتجاج کرتے اور سڑکیں بند کرتے دیکھا گیا ہے۔اپنے منفرد نام کے بارے میں بتاتے ہوئے امریکہ بی بی نے کہا کہ ان کے والد کی بڑی خواہش تھی کہ امریکہ جائیں لیکن قسمت نے ایسے ہونے نہیں دیا اور امریکہ سے ان دیکھی محبت کی وجہ سے انہوں نے اپنی بیٹی کا نام ’امریکہ بی بی‘ رکھ دیا۔وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے والد یہاں ورسک اور جمرود میں انگریزوں کے ساتھ تھے اور تعمیراتی کام کرتے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ وہ امریکہ جائیں۔ وہ بحری جہاز پر امریکہ کے لیے روانہ ہوئے تھے لیکن جب کلکتہ پہنچے تو وہاں انہوں نے اخبار الٹا پکڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ جا نہیں سکے۔ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن وہ بہت سمجھدار انسان تھے۔ انہوں نے کوشش کی لیکن ان کا امریکہ جانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔‘
جرات مندانہ رویے نے ’امریکہ بی بی‘ کو پورے علاقے میں نمایاں مقام دیا ہے۔
امریکہ بی بی ہنس کے کہتی ہیں کہ ’میرے نام کی طرح میرا دل بھی مضبوط ہے اور میرا والد بھی مضبوط تھا۔ میری عادتیں ان پر گئی ہیں۔ اللہ کے سوا کسی سے ڈرتی نہیں ہوں۔ اگر سڑک پر کھڑی ہو جاؤں تو افسران اور ملک بھی میرے قریب آنے سے گھبراتے ہیں۔‘
امریکہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بجلی اور پانی کے مسئلے پر تین، تین دن خواتین کے ہمراہ سڑکوں پر احتجاج کیا۔’یہ مسائل شروع سے حل نہیں ہو رہے۔ میری طرح دیگر خواتین کو بجلی اور پانی کی مشکلات تھیں۔ میں نے سوچا کہ کوئی تو آواز بلند کرنے کے لیے ہو اس لیے میں نے خود آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں نے کچھ خواتین کو اکٹھا کیا اور سڑک پر احتجاج کیا۔ ایسا قبائل میں مشکل سے ہوتا ہے لیکن مجبوری کی وجہ سے خواتین کو آگے آنا ہوتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ جب بھی انہیں احتجاج کرنا ہوتا تو انہوں نے کسی کو اپنی تصویر اور ویڈیو بنانے نہیں دی کیونکہ ’میرا تعلق قبائلی علاقے سے ہے اور وہاں میڈیا میں آنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔‘ان کا کہنا ہے کہ میرے پاس مال و دولت نہیں لیکن اپنے لوگوں کے لیے آواز تو بلند کر سکتی ہوں۔’کسی نے بھی قبائلی علاقہ جات کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جو بھی آتا ہے اپنی جیب بھر لیتا ہے۔ غریب لوگوں کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ میری لڑائی یہی ہے کہ آپ علاقے کے ملِک ہو کر صرف اپنے لوگوں کو نوکریاں دے دیتے ہیں اور غریبوں کو نہیں پوچھتے۔‘
دیگر اضلاع کی طرح ضلع خیبر میں عوامی سطح پر خواتین کو کم ہی دیکھا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ بی بی نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک دن میں پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر گئی۔ وہ اور ڈپٹی دونوں وہاں موجود تھے۔ جب میں غصے میں ان کے دفتر داخل ہوئی تو ایک افسر چھت پر چلا گیا اور دوسرے نے خاموشی سے مجھے سنا اور میں نے اسے بولا کہ گرمی ہے، نہ پانی ہے اور نہ بجلی، اس نے تسلیم کیا کہ مسائل موجود ہیں۔ پھر میری بات پر وقتی طور پر بجلی بحال کر دی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اکثر لوگ ان کے نام پر حیران ہوتے ہیں اور کچھ تو ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’آپ واقعی زورآور ہیں۔‘آج کل اگرچہ امریکہ بی بی اپنی صحت کے باعث زیادہ متحرک نہیں لیکن وہ خواتین کے جرگے کرتی ہیں اور ان کے خاندانی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مقامی مصنف قیس آفریدی کہتے ہیں کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے دور میں اگر مرد احتجاج کرتے تو فوراً جیل میں ڈال دیے جاتے اور ان کی بات سنی نہیں جاتی تھی۔ 20 برس قبل امریکہ بی بی کی قیادت میں خواتین نے احتجاج کرنا شروع کیا۔’ان کی آواز موثر ثابت ہوئی۔ احتجاج کے وقت خواتین کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اور نہ ہی ان پر گولی چلا سکتا ہے۔ امریکہ بی بی نے ان مشکلات کو خود محسوس کیا۔ اس لیے وہ نہ صرف خود نکلیں بلکہ دوسری خواتین کو بھی ساتھ لے کر آئیں۔ یہ ایک روایت پسند قبائلی علاقے میں بڑی بات تھی۔‘
ضلع خیبر پشاور اور طورخم سرحد کے قریب ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
صحافی ابراہیم شِنواری کہتے ہیں کہ بعض مواقع پر قبائلی خواتین نے اپنے حقوق اور مقامی مسائل کے حل کے لیے آواز ضرور اٹھائی لیکن اب بھی انہیں وہ حقوق نہیں مل رہے جو ہمارے مذہب اور آئین نے دیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ قبائلی خواتین صوبائی اسمبلی تک پہنچیں اور بعض لوکل گورنمنٹ سسٹم میں بھی منتخب ہوئیں لیکن ہم نے دیکھا اور محسوس کیا کہ قبائلی خواتین اب بھی روایات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔‘ان کے مطابق ’جہاں تک قیادت کے کردار کا تعلق ہے تو چند ایک قبائلی خواتین ضرور سامنے آئی ہیں لیکن وہ اب تک اپنے علاقوں کی لاکھوں خواتین کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔‘مختیار خان جو امریکہ بی بی کے بیٹے ہیں، اپنی ماں پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انہوں نے ہمیشہ عزت اور غیرت کے دائرے میں رہ کر زندگی گزاری ہے۔ وہ نہایت مضبوط عورت ہیں اور ہم اللہ کے شکرگزار ہیں کہ وہ ہماری ماں ہیں۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہوتیں تو شاید ان کا زیادہ نام ہوتا۔ انہی کی وجہ سے نہ صرف علاقے میں بلکہ سرکاری دفاتر میں بھی ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ ہمیں امریکہ بی بی کے بیٹے کے طور پر جانتے ہیں اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔‘