پاکستان نے اب تک آرمینیا کو تسلیم کیوں نہیں کیا تھا اور سفارتی تعلقات کیوں نہیں تھے؟

image
پاکستان اور آرمینیا کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کو وسطی اور جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں ایک تاریخی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ آرمینیا کی 1991 میں آزادی کے بعد تین دہائیوں سے زائد عرصے تک پاکستان نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ یوں آرمینیا دنیا کے ان چند ممالک میں شامل رہا جن کے ساتھ پاکستان نے سخت موقف اپنائے رکھا۔

اس پس منظر میں گہرے تاریخی، تزویراتی اور نظریاتی عوامل کارفرما تھے، جن کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے قیام میں اتنا وقت لگ گیا۔

جب آرمینیا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایک آزاد ریاست کے طور پر سامنے آیا تو بیشتر ممالک نے اسے تسلیم کر لیا۔ تاہم، پاکستان نے تسلیم کرنے سے گریز کیا، جس کی بنیادی وجہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ تنازع تھا، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مستقل حصہ رہا ہے۔

اسلام آباد نے ہمیشہ آذربائیجان کی حمایت کی اور اسے اصولی معاملہ سمجھا کہ باکو کی خودمختاری کو ان علاقوں پر تسلیم کیا جائے جو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ مانے جاتے ہیں۔ یہ حمایت صرف علامتی نہیں تھی بلکہ 1990 کی دہائی اور پھر 2020 کی جنگوں کے دوران آذربائیجان کے ساتھ قریبی سیاسی اور عسکری تعاون کی صورت میں سامنے آئی۔

یوں پاکستان کا آرمینیا کو تسلیم نہ کرنا براہ راست آذربائیجان کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات سے جڑا ہوا تھا۔

وزارت خارجہ کے حکام کے مطابق، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ترکی کے ساتھ تزویراتی شراکت داری نے اس موقف کو مزید مضبوط کیا۔ انقرہ نے نہ صرف سفارتی سطح پر پاکستان کی حمایت کی بلکہ کشمیر کے مسئلے پر بھی اسلام آباد کے ساتھ کھڑا رہا، اور باکو کے ساتھ سہ فریقی تعلقات قائم رکھے۔ اس سہ فریقی دوستی میں آرمینیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اتحادیوں کو کمزور کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ ترکی کے ساتھ نظریاتی ہم آہنگی اور آذربائیجان کے ساتھ باہمی تعاون نے پاکستان کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کی بہت کم گنجائش دی۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایک اور بڑی وجہ آرمینیا کے انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ آرمینیا نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر نئی دہلی کے مؤقف کی حمایت کی، جسے پاکستان نے غیر دوستانہ قدم قرار دیا۔ اس کے جواب میں اسلام آباد نے نگورنو کاراباخ کے مسئلے پر آذربائیجان کے مؤقف کو مزید تقویت دی۔

یہ باہمی مخالفت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف بند رکھے ہوئے تھی اور بداعتمادی کا سلسلہ جاری رہا۔ تعلقات اس وقت مزید خراب ہوئے جب 2016 میں آرمینیا نے پاکستان کی سی ایس ٹی او پارلیمانی اسمبلی میں مبصر کا درجہ حاصل کرنے کی درخواست کو ویٹو کر دیا۔ اسلام آباد نے اسے دشمنی پر مبنی اقدام سمجھا۔

 ماہرینِ سفارت کاری پاکستان کے اس اقدام کو عملی خارجہ پالیسی قرار دیتے ہیں۔ (فوٹو: دفتر خارجہ پاکستان)

2025  میں، جب بین الاقوامی ثالثوں کی کوششوں سے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان امن معاہدہ ہوا، تو اس نے دونوں حریفوں کے تعلقات کو معمول پر لایا، اور وہ بنیادی رکاوٹ دور ہو گئی جو پاکستان کو آرمینیا کے ساتھ روابط بڑھانے سے روکے ہوئے تھی۔ جب آذربائیجان اور آرمینیا خود سفارتی تعلقات قائم کر چکے تو اسلام آباد نے بھی آرمینیا کو تسلیم کرنا اپنے سفارتی مفادات کے منافی نہیں سمجھا۔

پاکستانی ماہرینِ سفارت کاری نے اس اقدام کو عملی خارجہ پالیسی قرار دیا ہے۔ تجزیہ کار ڈاکٹر ہارون کے مطابق، یہ فیصلہ سخت نظریاتی موقف سے عملی سفارت کاری کی طرف ایک اہم تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں پاکستان یہ تسلیم کرتا ہے کہ علاقائی امن نئی شراکت داریوں کے دروازے کھولتا ہے۔

سابق سفیر عبدالباسط کہتے ہیں کہ پاکستان نے طویل عرصے تک ایک بیانیے پر انحصار کی وجہ سے وسط ایشیا میں اپنی رسائی محدود رکھی۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے امن معاہدے کے بعد اسلام آباد کے پاس متوازن رویہ اپنانے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے، جس سے اس کے روایتی اتحادی بھی ناراض نہیں ہوں گے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس پیش رفت سے آرمینیا اور انڈیا کے بڑھتے تعلقات میں توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ماریہ سلطان کے مطابق، آرمینیا کو تسلیم کرنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انڈیا کو آرمینیا میں یکطرفہ اثر و رسوخ نہ ملے بلکہ پاکستان بھی اپنا بیانیہ وہاں کے سیاسی و سفارتی حلقوں تک پہنچا سکے۔

تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے تحت پاکستان اور آرمینیا کے درمیان مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے اس نئے سفارتی سفر کو عملی شکل ملی۔ دونوں ممالک نے معیشت، تعلیم، ثقافت اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کی خواہش کا اظہار کیا، اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی پاسداری کے عزم کو دہرایا۔

اس پیش رفت نے نہ صرف کئی دہائیوں پر محیط سفارتی خلا کو ختم کیا بلکہ اقتصادی تبادلوں، تعلیمی تعاون اور عوامی روابط کے نئے امکانات بھی پیدا کیے۔

ماہرین کے مطابق، سفارت کاری ماضی میں جمے رہنے کا نام نہیں بلکہ حال کے تقاضوں کے مطابق ڈھلنے کا عمل ہے۔ آرمینیا کو تسلیم کرنا پاکستان کا اسی تبدیلی کی طرف قدم ہے، جس سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنے سفارتی مفادات کو مقدم رکھتا ہے، اور جہاں ضرورت ہو وہاں سخت موقف اور لچک، دونوں کو اپنے مفادات کے تناظر میں استعمال کرتا ہے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US