حضرت بل درگاہ کے کتبے پر ’اشوک‘ کی تین شیروں والی شبیہ لگانے پر تنازع، سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی وفاداری پر سوالات

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سری نگر میں مسلمانوں کے لیے مقدس درگاہ حضرت بل کے کتبے پر اشوک لاٹ کا سرکاری نشان کنندہ کرنے پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سری نگر میں مسلمانوں کے لیے مقدس درگاہ حضرت بل کے کتبے پر اشوک لاٹ کا سرکاری نشان کنندہ کرنے پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

کچھ مقامی افراد نے جموں و کشمیر وقف بورڈ کے خلاف احتجاج کیا ہے جبکہ پتھر کے کتبے پر اشوک کے نشان کو توڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

یہ واقعہ جمعہ کے دن عید میلاد النبی کے موقعے پر پیش آیا۔

اس واقعہ کے بعد جموں و کشمیر وقف بورڈ کے چیئرپرسن درخشاں اندرابی نے اس سے متعلق ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل کی ہے۔

دوسری جانب حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس (این سی) نے کہا ہے کہ ’ہمارے مزارات ایمان، عاجزی اور اتحاد کی علامت ہیں، ان مقامات کو عبادت گاہ ہی بنے دینے رہنا چاہیے، تقسیم کی جگہ نہیں۔‘

حضرت بل درگاہ کی اہمیت

سری نگر میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار ماجد جہانگیر بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل درگاہ حضرت بل کی تعمیر نو کا کام شروع ہوا تھا۔

اس دوران وہاں ایک پتھر پر ایک کتبہ لگایا گیا جس میں جموں و کشمیر وقف بورڈ کے چیئرپرسن اور سینئر بی جے پی لیڈر درخشاں اندرابی کے ساتھ ساتھ بورڈ کے کچھ دیگر ارکان کے نام بھی لکھے گئے تھے۔

اس سنگ بنیاد پر اشوک کی لاٹ کا نشان بنایا گیا تھا، جس پر لوگوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اندرابی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر مولویوں نے ایسا کرکے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے۔

جمعہ کو مشتعل لوگوں نے اسے توڑنے کی کوشش بھی کی۔ اس واقعے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں۔

سری نگر کی یہ درگاہ اور مسجد مسلمانوں کے لیے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ عقائد کے مطابق یہاں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد کا ’موئے مبارک‘ ہے۔

اس مسجد کو آثار شریف، درگاہ شریف اور مدینۃ الثانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اس درگاہ کی تعمیر نو مسلم اوقاف ٹرسٹ کے شیخ محمد عبداللہ کی نگرانی میں 1968 میں شروع ہوئی اور کام 1979 میں ختم ہوا۔

موئے مقدس کو پہلی بار سنہ 1699 میں کشمیر لایا گیا، پہلے اسے نقش آباد صاحب میں رکھا گیا اور پھر بعد میں اسے حضرت بل لایا گیا۔

ہر سال شب معراج اور میلاد النبی کے خاص موقعوں پر ریاست بھر اور دور دراز کے علاقوں سے لوگ اس مسجد میں رکھے ہوئے پیغمبرِ اسلام کے موئے مقدس کی زیارت کے لیے اس درگاہ پر آتے ہیں۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ شب معراج کو اسلام کے آخری نبی حضرت محمد نے آسمان کی جانب سفر کیا اور خدا سے ملاقات کی۔

درخشاں اندرابی نے توڑ پھوڑ کے واقعے کی مذمت کی ہے اور ایف آئی آر کی دھمکی دی ہے
Getty Images
درخشاں اندرابی نے توڑ پھوڑ کے واقعے کی مذمت کی ہے اور ایف آئی آر کی دھمکی دی ہے

ریاستی وقف بورڈ کی چیئرپرسن نے کیا کہا؟

توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد درخشاں اندرابی نے جمعے کی شام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسے افسوسناک حملہ قرار دیا۔

کسی سیاسی جماعت کا نام لیے بغیر، انھوں نے کہا کہ ’قومی نشان کو توڑنا جرم ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت کے غنڈے ہیں جنھوں نے ایسا کیا ہے۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ ’اس جماعت نے پہلے بھی کشمیر میں تباہی مچائی تھی، آج بھی کھلے عام درگاہ شریف آئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا: ’ہمارے ناظم مرتے مرتے بچے ہیں۔ ان پر حملہ کیا گیا۔ درگاہ شریف کی ویڈیو جمعہ سے پوری دنیا میں چل رہی ہے۔ لیکن ان کے دل پر تیر چل رہے تھے۔ انھوں نے اپنے غنڈے بھیجے جنھوں نے یہ حملہ کیا۔‘

ان کا اشارہ بظاہر نیشنل کانفرنس کی جانب تھا۔

انھوں نے ایف آئی آر کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ’قانونی طور پر قومی نشان کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ انھوں نے درگاہ کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جائے گی اور جن کی نشاندہی کی جائے گی ان پر درگاہ میں داخلے کے لیے تاحیات پابندی عائد کر دی جائے گی اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔‘

نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ ریاست کے وزیر اعلی ہیں
Getty Images
نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں

وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کا ردعمل

حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما اور ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ نشان پتھر پر لگانا بھی چاہیے تھا؟‘

انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کسی مذہبی تقریب یا مذہبی مقام پر ایسا نشان استعمال ہوتے نہیں دیکھا، کیا کوئی مجبوری تھی کہ حضرت بل کے اس پتھر پر یہ نشان استعمال کیا گیا؟‘

عمر عبداللہ نے پوچھا کہ ’پتھر لگانے کی کیا ضرورت تھی، کیا کام کافی نہیں تھا، پتھر لگانے کی ضرورت نہیں تھی، اگر کام ٹھیک ہوتا تو لوگ خود کام کو پہچان لیتے۔‘

انھوں نے کتبہ لگانے والوں سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’مندر، مسجد، گرودوارہ، یہ تمام مذہبی مقامات ہیں جہاں قومی نشان کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی۔ ان مقامات پر قومی نشان کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ سرکاری پروگراموں میں سرکاری نشانات کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘

اس سے قبل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (جے کے این سی) نے اندرابی کے الزام کے جواب میں سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا تھا۔

نیشنل کانفرنس نے اپنے بیان میں کہا ہے: ’یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ درگاہ حضرت بل کے اندر کسی جاندار (شخص یا جانور) کی تصویر یا علامتی نشانی کا استعمال اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یہ ہزاروں عقیدت مندوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے اور توحید کے اصول کے مطابق اس طرح کی نشانیوں کا استعمال ممنوع ہے۔ عقیدت مندوں کے لیے یہ معمولی بات نہیں، بلکہ اس کا ان کے مذہبی جذبات سے گہرا تعلق ہے۔‘

مزید یہ بھی کہا گیا کہ ’وقف کوئی نجی ملکیت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹرسٹ ہے جو عام مسلمانوں کے تعاون سے چلتی ہے۔ اسے لوگوں کے عقیدے اور روایت کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔‘

نیشنل کانفرنس نے اپنے بیان میں وقف بورڈ کی چیئرپرسن کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’ہم ایسے نمائندوں کو دیکھ رہے ہیں جو منتخب نہیں ہوئے، انھیں جموں و کشمیر کے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، بلکہ انھوں نے از خود اس مقدس مقام پر ایک اعلیٰ عہدہ سنبھالا ہوا ہے۔ یہ نہ صرف اس درگاہ کے تقدس کی توہین ہے، بلکہ احتساب اور خاکساری جیسے بنیادی اصولوں کا مذاق بھی ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گيا ہے کہ ’یہ بات پریشان کن ہے کہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگنے کے بجائے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔‘

دریں اثنا، این سی کے چیف ترجمان اور زادی بل کے ایم ایل اے تنویر صادق نے کہا کہ درگاہ پر کسی جاندار کی تصویر لگانا اسلام کے خلاف ہے کیونکہ اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے۔

انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا: ’کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا غلط ہے۔ ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں بت پرستی کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہ کوئی سرکاری عمارت نہیں ہے، یہ ایک درگاہ ہے۔‘

پی ڈی پی سربراہ کی تنقید

پی ڈی پی سربراہ اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے جمعہ کو پیش آنے والے اس واقعہ پر سخت تنقید کی ہے۔

انھوں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا: ’یہ درگاہ پیغمبر اسلام سے متعلق ہے، لوگ یہاں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کریں گے۔‘

’مسلمانوں کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، وہاں اس قسم کی گستاخی سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، لوگ اس نشان کے خلاف نہیں ہیں لیکن اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے، اس لیے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اسے یہاں کیوں نصب کیا گیا؟‘

انھوں نے کہا: ’یہ کہنا غلط ہے کہ لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں ان کے ہی خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے کیونکہ یہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی توہین کے مترادف ہے۔‘

انھوں نے وزیراعلیٰ سے ایکشن لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا: ’میں وزیراعلیٰ سے درخواست کروں گی کہ اس کے لیے اوقاف ذمہ دار ہے کیونکہ وہاں کے تمام لوگ مسلمان ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے سنگ بنیاد (کے کتبے) میں ایسی چیز کیسے رکھی جسے اسلام میں حرام سمجھا جاتا ہے۔‘

عید میلاد النبی کی چھٹی جمعے کے بجائے سنیچر کو دی گئی
BBC
کشمیر میں عید میلاد النبی کی چھٹی جمعے کے بجائے سنیچر کو دی گئی

عید کے حوالے سے تنازع

جمعہ کو انڈیا بھر میں عید میلاد النبی منائی گئی لیکن جموں و کشمیر میں اس کے لیے سنیچر کو سرکاری چھٹی دی گئی۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک سابق پوسٹ میں کہا کہ انتظامیہ کا جمعہ کی چھٹی کو سنیچر کی چھٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ غیر حساس ہے اور لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔

انھوں نے سرکاری پریس کی طرف سے چھپنے والے کیلنڈر کی تصویر شیئر کی جس میں عید میلاد النبی کے چاند کی رویت کی بنیاد پر 5 ستمبر کو چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے۔

حضرت بل کو انتہائی احترام اور عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے
Getty Images
حضرت بل کو انتہائی احترام اور عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے

سوشل میڈیا پر تبصرے: ’مسلمان کی وفاداری قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی ٹرینڈ نظر آ رہے ہیں جن میں اشوک، اشوک ستمبھ، قومی نشان، حضرت بل اور کشمیر وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے تحت این سی کے رہنما عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی کے بیانات بھی شیئر کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ اس واقعے کے حوالے سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اشوک لاٹ کی تین شیر والی علامت خدا کی علامت نہیں ہے۔

نشان کو پتھر سے مٹانے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے مصنف آنند رنگناتھن نے لکھا: ’اشوک کا نشان انڈیا کی نمائندگی کرتا ہے، خدا کی نہیں۔ یہ ایک آئیڈیل ہے، مورت نہیں۔ اور پھر بھی اسے توڑا جا رہا ہے۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا: ’مسلمان کی وفاداری اس کی قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘۔‘

عارف اجاکیا نامی ایک صارف نے لکھا: ’اسلام کو بچانے کے لیے انھوں نے درگاہ سے اشوک کا نشان ہٹا دیا ہے لیکن وہ وہی نشان کعبہ اور مدینہ کے دورے کے دوران اپنے سینے کے قریب رکھتے ہیں جو ان کے پاسپورٹ اور بینک نوٹوں پر ہوتا ہے۔ یاد رکھیں آپ اشوک کے نشان کے بغیر حج پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

اس کے جواب میں حسن وانی نامی ایک صارف نے لکھا: ’ہر چیز کو آپس میں نہ ملائیں۔ پہلی بات یہ کہ مسجد کی دیوار پر کوئی تصویر یا نقش و نگار لٹکانا اسلامی شریعت میں قطعی طور پر ناجائز اور حرام ہے۔ جبکہ اپنی جیب میں پیسے یا پاسپورٹ رکھنا ایک الگ بات ہے۔ جذبات کو بھڑکانے اور سیاسی ماحول کو گرمانے کے لیے اس کا سیاسی مقاصد کے لیے فائدہ اٹھانا، ان دونوں حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ حماقت سے کم نہیں!‘

بہت سے صارفین نے اسے جہادی طرز عمل کہا ہے جبکہ کئی افراد نے اس جہالت اور تنگ نظری سے تعبیر کیا ہے اور کچھ صارفین پوچھ رہے ہیں کہ اسے دوسرے مذہبی مقامات پر کیوں نہیں لگایا جاتا؟

بہت سے صارفین اس واقعے کو مسلمانوں کی انڈیا سے وفاداری پر سوالیہ نشان کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

فلٹریشن نامی ایک صارف نے لکھا: ’اشوک بدھ مت کے پیروکار تھے۔ اشوک کی لاٹ مہاتما بدھ کی تعلیمات سے متاثر ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کی عقیدت کے مقام حضرت بل میں اشوک کی علامت کو لگایا وہ مذہبی انتشار کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US