وسطی لندن میں انتہائی دائیں بازو کے ایکٹوسٹ ٹومی رابنسن کی جانب سے سنیچر کو منعقدہ مارچ میں ایک لاکھ سے زائد افراد جمع ہوئے، جس کے دوران جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ پولیس کو ہجوم پر قابو پانے کی کوشش میں ’ناقابلِ قبول تشدد‘ کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد نو افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔اے ایف پی اور روئٹرز کے مطابق پولیس نے کہا کہ تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار افراد نے اس انتہائی دائیں بازو کے مارچ میں شرکت کی۔ جھڑپیں اُس وقت شروع ہوئیں جب کچھ افراد مرکزی سٹیج تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور انہوں نے مخالف مظاہرین کے قریب قائم کیے گئے ’سکیورٹی زونز‘ میں گھسنے کی کوشش کی۔پولیس کا کہنا تھا کہ ’جب افسران نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہیں ناقابلِ قبول تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔‘’اہلکاروں پر لاتوں اور گھونسوں سے حملہ کیا گیا، بوتلیں، فلیئرز اور دیگر اشیا پھینکی گئیں۔‘پولیس نے مزید بتایا کہ ’اب تک مختلف جرائم میں نو افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، لیکن بہت سے دوسرے افراد کی شناخت بھی کی گئی ہے جنہوں نے قانون شکنی کی۔‘
مظاہرین نے انگلینڈ اور برطانیہ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔
دوپہر تک مظاہرین کی بڑی تعداد دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر جمع ہو چکی تھی، جو بعد ازاں ویسٹ منسٹر کی جانب روانہ ہوئے، جہاں برطانوی پارلیمنٹ واقع ہے۔
مظاہرین نے برطانیہ کا یونین جیک اور انگلینڈ کا سرخ و سفید سینٹ جارج کراس اٹھا رکھا تھا، جبکہ بعض افراد نے امریکی اور اسرائیلی جھنڈے بھی لہرائے اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ مظاہرین وزیرِاعظم کیئر سٹارمر کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’انہیں واپس بھیجو‘ جیسے نعرے درج تھے۔ کئی شرکا اپنے بچوں کو بھی ہمراہ لائے تھے۔’ہمیں رابنسن پر یقین ہے‘رابنسن نے اس مارچ کو ’یونائیٹ دی کنگڈم‘ (بادشاہت کو متحد کریں) کا نام دیتے ہوئے اسے آزادیِ اظہار کا جشن قرار دیا ہے۔ مارچ میں امریکی قدامت پسند کارکن چارلی کرک کی یاد میں سوگ کا پہلو بھی شامل ہے، جنہیں بدھ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ٹومی رابنسن خود کو ایک ایسا صحافی قرار دیتے ہیں جو ریاستی بدعنوانی کو بے نقاب کرتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ٹامی رابنسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ’لاکھوں افراد پہلے ہی وسطی لندن کی سڑکوں پر نکل چکے ہیں، ہم اپنی آزادیوں کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔‘
ٹومی رابنسن، جن کا اصل نام سٹیفن یاکسلی لینن ہے، خود کو ایک ایسا صحافی قرار دیتے ہیں جو ریاستی بدعنوانی کو بے نقاب کرتا ہے۔ ان کے حامیوں میں امریکی ارب پتی ایلون مسک بھی شامل ہیں، تاہم برطانیہ کی سب سے بڑی اینٹی امیگریشن سیاسی جماعت ’ریفارم یوکے‘ نے حالیہ مقبولیت کے باوجود رابنسن، جن کے خلاف کئی فوجداری مقدمات درج ہیں، سے فاصلہ اختیار کیا ہوا ہے۔مارچ میں شریک ایک خاتون سینڈرا مچل کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنا ملک واپس چاہتے ہیں، ہم آزادی اظہار واپس چاہتے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’غیرقانونی امیگریشن بند ہونی چاہیے۔ ہم ٹومی پر یقین رکھتے ہیں۔‘
دوپہر تک مظاہرین کی بڑی تعداد دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر جمع ہو چکی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
خیال رہے کہ امیگریشن اس وقت برطانیہ میں سب سے بڑا سیاسی مسئلہ بن چکا ہے، جس نے معیشت کے بحران جیسے اہم معاملات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ملک کو پناہ کی درخواستوں کی ریکارڈ تعداد کا سامنا ہے۔
رواں برس اب تک 28 ہزار سے زائد افراد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔