فلوریڈا میں دائر عدالتی دستاویز کے مطابق ٹرمپ نے بی بی سی پر ہتک عزت اور صحافتی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ ٹرمپ نے ان دونوں دعوؤں پر پانچ، پانچ ارب ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینوراما کی دستاویزی فلم کی ایڈیٹنگ کے معاملے پر بی بی سی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ اس پر بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں اپنا دفاع کیا جائے گا۔
بی بی سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ ہم اس کیس کا دفاع کریں گے۔ قانونی کارروائی جاری ہے اور اس پر ہم مزید کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔‘
فلوریڈا میں دائر عدالتی دستاویز کے مطابق ٹرمپ نے بی بی سی پر ہتک عزت اور صحافتی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ ٹرمپ نے ان دونوں دعوؤں پر پانچ، پانچ ارب ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی صدر کی قانونی ٹیم نے بی بی سی پر ٹرمپ کی تقریر کو ’جان بوجھ کر، بدنیتی اور دھوکہ دہی‘ سےپیش کر کے انھیں بدنام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
بی بی سی نے ابھی تک اس مقدمے کا کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل صدر ٹرمپ کی قانونی ٹیم نے بی بی سی کو ڈاکیومنٹری سے ’مکمل اور شفاف لاتعلقی کے اظہار‘ کے لیے 14 نومبر تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ بصورت دیگر بی بی سی کے خلاف ہرجانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے بی بی سی کو موصول ہونے والے خط میں معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ بی بی سی ٹرمپ کو اس پر ’معاوضہ‘ ادا کرے۔
بی بی سی نے اس کے بعد امریکی صدر سے اس معاملے پر معافی مانگ لی تھی تاہم ٹرمپ کے ہتکِ عزت کے دعووں کو مسترد کر دیا تھا۔
ادارے کے چیئر سمیر شاہ نے ڈاکیومنٹری پرغلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی بی سی اس کے لیے معذرت خواہ ہے۔
کلچر اور میڈیا سپورٹ کمیٹی کے خط کے جواب میں سمیر شاہ نے کہا کہ ’یہ سچ نہیں‘ کہ میمو نے ان مسائل سے پردہ اٹھایا جنھیں بی بی سی نے ’دفن (پس پشت ڈالنے) کرنے کی کوشش کی تھی۔‘ اور نہ ہی یہ تجویز کرنا درست تھا کہ بی بی سی نے میمو میں اٹھائے گئے خدشات سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
اس میمو میں بی بی سی پر غزہ کوریج، ٹرمپ مخالف اور اسرائیل مخالف تعصب اور یکطرفہ ٹرانسجینڈر رپورٹنگ کا الزام لگایا گیا۔
دیگر تمام پریشان کن معاملات میں اس میمو میں پینوراما کے ایڈیٹ کو بھی نمایاں کیا گیا تھا۔
پارلیمینٹری کمیٹی کو لکھے گئے خط میں سمیر شاہ نے کہا کہ میمو کے شائع ہونے کے بعد سے بی بی سی کو 500 سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔
انھوں نے کہا کہ رواں سال مئی اور جنوری میں ادارجاتی گائیڈ لائنز اور سٹینڈرز کمیٹی میں پینوراما ایڈیٹ پر بات چیت ہوئی تھی۔ سمیر شاہ نے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’بہتر ہوتا کہ مزید رسمی کارروائی کی جاتی۔‘
یاد رہے کہ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے گذشتہ مہینے بی بی سی کے ایک اندرونی میمو کی تفصیلات شائع کی تھیں جس میں بظاہر کہا گیا تھا کہ پینوراما پروگرام نے امریکی صدر کی تقریر کے دو حصوں کو ایک ساتھ ایڈٹ کیا تاکہ انھیں واضح طور پر جنوری 2021 کے کیپٹل ہل فسادات کی حوصلہ افزائی کرتے دکھایا جا سکے۔
اس تنازع کے تناظر میں بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور ہیڈ آف نیوز ڈیبورا ٹرنَس اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہو گئے تھے۔
ٹم ڈیوی، جو بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر پانچ سال سے فائز تھے، نے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر عوامی اداروں کی طرح، بی بی سی بھی غلطیوں سے مبرا نہیں اور ہمیں ہمیشہ شفاف اور جوابدہ ہونا چاہیے۔
وہ لمحہ جس نے بی بی سی میں اعلیٰ سطح پر اختلاف ظاہر کیا: کیٹی رزال کا تجزیہ

یہ کسی زلزلے جیسا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ بی بی سی نے بیک وقت اپنے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اور نیوز کی سی ای او کو کھو دیا۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ یہ بی بی سی کی تاریخ میں غیر معمولی لمحہ ہے۔
بظاہر ٹِم ڈیوی کا مستعفی ہونا سمجھ میں بھی آتا ہے۔
میں نے کچھ دیر کے لیے اس بارے میں سوچا کہ کیا وہ یہ جائزہ لے رہے تھے کہ وہ کتنی دیر تک اس نوکری پر مزید رہیں گے جہاں ان پر بہت دباؤ رہتا ہے۔
رواں سال جب تنازعات اُبھر رہے تھے، اس دوران میں نے کئی بار ان کا انٹرویو کیا۔ وہ اتنے پُرجوش نہیں تھے۔
اپنے استعفے میں انھوں نے حوالہ دیا کہ ’ایسے مشکل وقتوں میں اس عہدے پر کام کرنے کے لیے کئی برسوں تک نجی اور پیشہ ورانہ مصائب جھیلنے پڑے۔‘
میرا تجزیہ ہے کہ حالیہ تنازع سابقہ کئی بحرانوں کے بعد آخری کیل ثابت ہوا (اس سے قبل غزہ پر دستاویزی فلموں اور گلاسٹنبری فیسٹیول پر بوب ویلن کی پرفارمنس دیگر تنازعات میں شامل ہیں)۔ شاید ٹِم ڈیوی کے پاس ایک اور تنازعے سے نمٹنے کے لیے اتنا حوصلہ نہ بچا ہو۔
بی بی سی کے سابق ہیڈ آف کمیونیکیشن جان شیلڈ نے مجھے بتایا تھا کہ ’عوامی زندگی میں ڈی جی کی نوکری سب سے مشکل ہے۔‘
’ان کے لیے یہ نہایت مشکل رہی۔ وہ ایک باصلاحیت رہنما ہیں جو تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے جب آپ کمزور پڑ جاتے ہیں۔‘
مجھے بتایا گیا کہ جب ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران ٹم ڈیوی نے اپنے ساتھیوں کو اس بارے میں آگاہ کیا تو اس پر حیرت ظاہر کی گئی۔
ڈیبورا ٹرنَس کے بیان سے واضح ہے کہ انھوں نے اصول کی بنیاد پر استعفی دیا۔ صدر ٹرمپ سے متعلق پینوراما کی کوریج پر جنم لینے والے تنازعے نے بی بی سی کو نقصان پہنچایا اور اس بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ سلسلہ مجھ پر تمام ہوتا ہے۔ اور میں نے گذشتہ شب ڈائریکٹر جنرل کو اپنا استعفی پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
مگر کسی بھی استعفے کی طرح، خاص کر ان دو استعفوں کے بعد، میں خود کو یہ سوچنے سے نہیں روک سکتی کہ کیا یہ معاملہ اس سے بھی آگے کا ہے۔ جو ہوا اس کی روشنی میں بی بی سی بورڈ، اس کے کردار اور اس میں موجود افراد توجہ حاصل کر رہے ہیں۔
ٹم ڈیوی کی 2016 میں لی گئی تصویربظاہر یہ لڑائی بورڈ اور نیوز ڈویژن کے درمیان ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بی بی سی طویل عرصے سے اپنے اندر ادارہ جاتی تعصب کو ختم کرنے میں ناکام رہا اور کئی لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ آیا یہ سب رچایا گیا اور اسے سیاسی بنایا گیا تاکہ کارپوریشن کے خلاف مہم چلائی جا سکے اور اسی کے نتیجے میں دو لوگوں کو استعفی دینا پڑا۔
جب سے اخبار ٹیلی گراف نے اپنی تحریر شائع کی میں یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ بی بی سی نے اعتماد کے ساتھ اس کا مقابلہ کیوں نہیں کیا۔ اس وقت بی بی سی پر تعصب کا الزام لگ رہا تھا اور شہ سرخیوں سے بی بی سی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا۔
انھیں چاہیے تھا کہ الزامات کے جواب کو دو چیزوں میں تقسیم کرتے۔
پہلی بات پینوراما کے پروگرام میں ٹرمپ کی تقریر کی ایڈیڈنگ کے حوالے سے تھی جس کا فوری جواب ضروری تھا۔ اس پر فوراً معذرت کی جاتی یا یہ دلیل دی جاتی کہ بی بی سی کو کیوں لگتا ہے کہ اس نے صدر کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا تھا۔
اس سے بی بی سی اپنی صحافت کے لیے لڑتا دکھائی دیتا۔ یاد رہے کہ بی بی سی پر ادارہ جاتی تعصب کا الزام لگایا جا رہا تھا۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ یہاں غیر جانبداری نہیں۔ کسی بھی نیوز آپریشن کے خلاف ایسے الزامات سنگین ہوتے ہیں۔
پینوراما پروگرام میں کی گئی غلطی پر معافی (یا اس کے دفاع میں فوری دلیل) سے بی بی سی ادارہ جاتی تعصب جیسے دعوؤں کی نفی کرنے کی کوشش کر سکتا تھا۔
یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ بی بی سی ادارتی غیر جانبداری یقینی بنانے کے لیے اقدام اٹھا رہا ہے یا بی بی سی عربی کے کیس میں پہلے ہی اقدام اٹھا چکا ہے۔
اس کے برعکس بی بی سی نے اس بیانیے کو پنپنے دیا اور ہم ان حالات تک آن پہنچے جہاں ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس نے بی بی سی کو ’فیک نیوز‘ کہا اور اس پر بحث شروع ہو گئی۔
بی بی سی کے اندر کئی ذرائع سے بات کر کے مجھے معلوم ہوا کہ پینوراما پروگرام پر بی بی سی کا بیان کئی روز سے تیار تھا۔
بی بی سی یہ بتانا چاہتا تھا کہ ٹرمپ کی تقریر کی ایڈیڈنگ جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے کے لیے نہیں کی گئی۔ بلکہ اب نظرثانی کے بعد بی بی سی کا خیال ہے کہ ویڈیو میں کوئی وضاحت ہونی چاہیے تھی جس سے ناظرین سمجھ سکتے کہ تقریر کے دو حصوں کو آپس میں جوڑا گیا۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ جیسے جیسے ہفتہ آگے بڑھتا رہا ڈیبورا ٹرنس غصے اور پریشانی کا شکار ہوتی رہیں کیونکہ بورڈ نے انھیں ایسی کوئی معافی دینے سے منع کر رکھا تھا۔
بی بی سی کے بورڈ نے کلچر میڈیا اینڈ سپورٹ کمیٹی کے خط کا فیصلہ کیا تھا۔
(مگر کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ نیوز کے سربراہان کو پینوراما کی ایڈیڈنگ میں مسائل سمجھنے میں وقت لگا اور اس بارے میں بحث مباحثہ جاری رہا کہ کیسے جواب دینا چاہیے۔)
بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور ہیڈ آف نیوز ڈیبورا ٹرنَس اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہو گئے ہیںبی بی سی کے اندر اور باہر کئی لوگ جواب نہ دینے کو بڑی غلطی سمجھتے ہیں۔ ان الزامات پر ٹیلی گراف کی کوریج نقصان دہ تھی اور بی بی سی ان کا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا۔
مجھے بتایا گیا کہ ٹرنس پھر بورڈ میٹنگ میں گئیں تاکہ ٹیلی گراف کی تحریروں سے پیدا ہونے والے بحران پر بات کر سکیں مگر انھیں وہاں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ لوگوں نے اسے ’توڑ دینے‘ کے مترادف قرار دیا۔
وہ لوگ جو بی بی سی کی صحافت پر سوال اٹھاتے ہیں، اسے ہی احتساب کہیں گے۔
مگر ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ یہ ’بورڈ کے ارکان اور مشیروں کی جانب سے دو سال تک بی بی سی کی صحافت پر کڑی تنقید کا نتیجہ ہے۔ یہ تمام افراد ایک جیسے سیاسی خیالات رکھتے ہیں۔‘
وہ سر رابی گِب کی جانب سے اشارہ کرتے ہیں جو بی بی سی کے سابق مدیر ہیں۔ وہ سابق وزیر اعظم ٹریزا مے کے ڈائریکٹر آف کمیونیکیشن بن گئے تھے اور اب اس بورڈ کے رکن ہیں۔
اخبار دی سن کے مدیر اور اب بی بی سی کے پریزینٹر ڈیوڈ یلینڈ نے کہا کہ ’یہ تخت الٹنے سے کم نہیں۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ بی بی سی بورڈ کی بنیادیں ہِل چکی ہیں اور ’اس کے قریبی حلقے مخالف اخباروں کے مدیروں، سابق وزیر اعظم اور پبلک سروس براڈکاسٹنگ کے دشمنوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔‘
دی سن کے ایک اور سابق ایڈیٹر کیلون مکینزی نے مختلف موقف اپنایا۔ بی بی سی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’استعفیٰ دینا صحیح عمل تھا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو کبھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ تقریر کی ایڈیڈنگ پر ٹرمپ بی بی سی کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتے تھے یا وائٹ ہاؤس میں بی بی سی پر پابندی لگا سکتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ پر (ٹرمپ کی تقریر کو لے کر) اعتماد نہیں کیا جا سکتا تو پھر کس چیز پر آپ کو قابل اعتماد سمجھا جا سکتا ہے؟‘
امریکی صدر ٹرمپ نے خود بھی پہلی بار اس بحث میں حصہ لیا۔ ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں انھوں نے ان استعفوں کا جشن منایا اور بی بی سی پر اپنی تقریر میں ’تحریف‘ کا الزام لگایا۔ وہ کہتے ہیں کہ بی بی سی نے ’صدارتی الیکشن پر قدم رکھنے کی کوشش کی۔‘
مجھے ٹِم ڈیوی کے بیان میں ایک لائن پر حیرت ہوئی۔ انھوں نے بی بی سی کے بارے میں کہا کہ ’ہمیں اس کا دفاع کرنا چاہیے، اسے ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔‘
آج کئی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ڈائریکٹر جنرل اور نیوز کی سی ای او کے استعفوں کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔