سبز کائی کا پھیلاؤ اور بدبودار پانی، برطانیہ کی سب سے بڑی ’جھیل مر رہی ہے‘

image
برطانیہ اور آئرلینڈ کی سب سے بڑی جھیل لوف نیگ کا پانی مسلسل تیسرے سال زہریلے ہرے رنگ کے مٹر کے سوپ کی طرح نظر آ رہا ہے جس سے خراب انڈوں جیسی بدبو کے بھبھکے اُٹھ رہے ہیں۔

رواں سال موسم گرما میں جھیل کا یہ گھنا سبز پوشاک اس قدر وسیع ہے کہ خلا سے بھی نظر آتا ہے۔ اور شمالی آئرلینڈ کے تاریخی مقام کے قریب رہنے والے مقامی لوگوں کے مطابق یہ جھیل اب پہلے سے کہیں زیادہ بدتر حالت میں ہے۔

بہتے پانی میں تیراکی کرنے والی میری اوہگن نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ ’جھیل مر رہی ہے۔‘

بالیرونان علاقے میں جھیل کے مغربی کنارے پر بطخیں سبز رنگ اوڑھے پتھروں سے نبرد آزما دکھائی دے رہی ہیں۔

ماہرین کے مطابق جھیل کے پانی میں اس سبز کائی کی افزائش صنعتی، زرعی اور سیوریج کی آلودگی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔

جھیل میں اس آلودگی نے ماہی گیری اور پانی کے کھیلوں کو ختم کر دیا ہے، اور علاقے میں پینے کے پانی کے محفوظ ہونے کے حوالے سے بھی خدشات کو جنم دیا ہے۔

شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ سے 54 کلومیٹر مغرب میں بالیرونان کے علاقے سمیت جھیل کے 78 میل طویل ساحل پر نہانے پر پابندی کے سائن بورڈ جگہ جگہ آویزاں ہیں۔

جھیل کی اس آلودگی کے لیے مرغیوں کی خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد اور کھاد کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جو پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔

ماہرین جھیل کے پانی کے آلودہ ہونے کی متعدد وجوہات بتاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

براہ راست سیوریج اور سیپٹک ٹینک سے نکلے ہوئے پانی کو بھی جھیل میں گندگی اور بدبو کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

کمپنی موئے پارک نے جھیل کے پانی میں مرغیوں کے خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے مواد کے پھینکے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولٹری سیکٹر ’استعمال شدہ پانی کو ٹھکانے لگانے میں سخت اصولوں پر کاربند ہے۔‘

کمپنی کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ جھیل میں گندی سبز کائی کا اگاؤ کسی ایک شعبے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔

تیراک میری اوہگن کہتی ہیں کہ یہ جھیل کورونا کی عالمی وبا کے پھیلنے کے دنوں میں اُن کی ٹریننگ کی جگہ تھی لیکن گندگی کی وجہ سے اب وہ اس کے پانی میں اپنے پاؤں بھی نہیں رکھ پا رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 48 برس کی عمر میں وہ ایسی بیماری سے لڑ رہی ہیں جس میں اُن کی واحد ایکسرسائز تیراکی ہے۔ اور اب اُن کو مقامی سوئمنگ پولز میں تیراکی کرنا پڑتی ہے۔

مقامی ماہی گیروں کے مطابق جھیل چند برس قبل تک مچھلیوں اور پرندوں کا مسکن تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

میری اوہگن نے جھیل کے ساحل کے ساتھ لہروں پر سبز کائی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ’جب میں اپنی زندگی کے ایک برے دور سے گزر رہی تھی تو یہاں شاندار طلوع آفتاب کے ساتھ تیراکی نے میری مدد کی۔ اب اس کا منظر دل دہلا دینے والا ہے۔‘

میری اوہگن نے اب ’جھیل کو بچاؤ‘ مہم چلانے گروپ میں شمولیت اختیار کی ہے جو احتجاج کر رہا ہے کہ شمالی آئرلینڈ کی علاقائی حکومت آلودگی کے خاتمے کے لیے تیزی سے کام کرے۔

مقامی ماہی گیر مک ہیگن نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ جھیل کبھی مچھلیوں اور پرندوں کا مسکن تھی۔ ’یہ ٹراؤٹ مچھلی سے بھری ہوتی تھی، مگر اب نہیں رہی۔‘

جھیل کے پانی سے فشریز چلانے والی مقامی کمپنی نے بھی معیار کے خدشات کے باعث پیداوار معطل کر دی ہے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US