امریکی عدالت نے فلسطین کے حق میں مظاہروں کی قیادت کرنے والے سماجی کارکن محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوبی امریکی ریاست لوزیانا کے جج جیمی کومنز نے اپنے حکمنامے میں لکھا کہ محمود خلیل کو امریکہ سے نکال کر الجزائر یا کسی متبادل ملک جیسے شام بھیجا جائے۔عدالت کے مطابق محمود خلیل گرین کارڈ کی درخواست میں ذاتی معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔عدالتی حکمنامے میں معلومات کی عدم فراہمی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’یہ کسی ناواقف، غیر تعلیم یافتہ درخواست دہندہ کی طرف سے ہونے والی غلطی نہیں ہے بلکہ، اس عدالت کو معلوم ہوا ہے کہ جان بوجھ کر حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔‘حکمنانے کے جواب میں محمود خلیل نے امریکی سول لبرٹیز یونین کو دیے گئے بیان میں کہا ’یہ حیرت کی بات نہیں کہ اظہار رائے کے حق کو استعمال کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ میرے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔‘’کینگرو امیگریشن کورٹ کے ذریعے کی گئی اس حالیہ کوشش سے ان کے اصل مقاصد ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آئے ہیں۔‘الجزائر میں پیدا ہونے والے محمود خلیل امریکہ میں قانونی طور ہر رہائش پذیر ہیں اور ان کی اہلیہ امریکی شہری ہیں جبکہ ان کا ایک بیٹا بھی ہے جس کی پیدائش امریکہ میں ہوئی تھی۔محمود خلیل کو امیگریشن حکام کی جانب سے مارچ میں حراست میں لیا گیا تھا تاہم تین ماہ بعد ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
عدالت کے مطابق محمود خلیل نے گرین کارڈ کی درخواست میں حقائق چھپائے۔ فوٹو: اے ایف پی
رہائی کے بعد محمود خلیل نے امیگریشن ایجنٹوں کے ذریعے گرفتاری پر ٹرمپ انتظامیہ پر دو کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم محمود خلیل کا غزہ میں جنگ کے خلاف ہونے والے طلباء کے مظاہروں میں اہم کردار تھا۔ انہیں ٹرمپ انتظامیہ نے قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی عدالت کو خط لکھا تھا کہ محمود خلیل کے ایکٹیو ازم سے واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔