اتوار کے روز برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کیا جبکہ مزید ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے دوران ایسا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کیا مطلب ہے؟

غزہ میں ہونے والی تباہی اور شدید انسانی بحران سفارتی منظر نامے پر قابل ذکر تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے۔
اتوار کے روز برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کیا جبکہ مزید ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے دوران ایسا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
توقع ہے کہ آنے والے چند گھنٹوں میں بیلجیئم، فرانس، سان مارینو، لکزمبرگ، مالٹا اور اندورا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔
فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں کی جانب سے بھی اسی طرح کے اشارے مل رہے ہیں۔
حال ہی میں جن ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے کہ ان میں برطانیہ اور کینیڈا کا فیصلہ قابل ذکر ہے۔ برطانیہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے اور اسی وجہ سے اسے سلامتی کونسل کے فیصلوں پر ویٹو پاور حاصل ہے، جب کہ کینیڈا پہلا جی سیون ملک ہے جس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔
جی سیون ان ممالک کی تنظیم ہے جنھیں دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ معیشتیں کہا جاتا ہے۔

فرانس کے فلسطین کو تسلیم کر لینے بعد امریکہ سلامتی کونسل کا واحد مستقل رکن ہو گا جو فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا۔
دیگر دو مستقل ارکان، چین اور روس (جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھے) نے نومبر 1988 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی جانب سے الجزائر میں فلسطینی ریاست کی آزادی کا اعلان کرنے کے چند دن بعد ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا۔
فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر فلسطین کو تسلیم کرے گا۔
برطانیہ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ اسرائیل غزہ میں ’خوفناک صورتحال‘ کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور فلسطینی عسکری گروپ حماس کے ساتھ جنگ بندی سے انکار کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ، برطانوی لیبر حکومت نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ مغربی کنارے میں مزید قبضہ نہ کرنے اور ایک طویل مدتی امن عمل کے لیے عہد کریں جو دو ریاستی حل کی طرف جائے۔
لندن نے حماس سے تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے، اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کرنے، ہتھیار ڈالنے اور مستقبل کی غزہ کی حکومت میں کوئی کردار ادا نہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
اگرچہ ان مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا ہے، سر کیئر سٹارمر نے اسرائیلی حکام اور یرغمالیوں کے کچھ رشتہ داروں کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ ان کا یہ قدم حماس کے لیے ’انعام‘ کے مترادف ہے۔
برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ دو ریاستی حل کے لیے ہمارا مطالبہ حماس کے نفرت انگیز وژن کے بالکل برعکس ہے۔
حماس سے ایسی ہی شرائط کا مطالبہ جولائی کے آخر میں عرب لیگ کے 22 رکن ممالک، یورپی یونین اور 17 دیگر ممالک کی جانب سے نیویارک میں دستخط کیے گئے ایک اعلامیے میں کیا گیا تھا۔
حماس نے ان مطالبات کے جواب میں کہا تھا وہ تب تک اسلحہ نہیں ڈالیں گے جب تک ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام وجود میں نہیں آتا۔

غزہ جنگ کا خاتمہ اور دو ریاستی حل
غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک 13 ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں جن میں سپین، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال، آئرلینڈ، ناروے، سلووینیا، بہاماس، جمیکا، بارباڈوس، آرمینیا، اور ٹرینیڈا شامل ہیں۔
فرانس کے صدر ایمانویل میخواں نے ایکس پر جاری ایک پیغام میں ان ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے اپنی رضامندی کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ’آج کی سب سے اہم ضرورت غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور شہری آبادی کا تحفظ ہے۔‘
’امن ممکن ہے۔ ہمیں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کی سکیورٹی اور تعمیر نو پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بنیامن نیتن یاہو کی حکومت ’سات اکتوبر کے قتل عام کے بعد تل ابیب کے ساتھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے‘ کےان اعلانات کو مسترد کرتی ہے۔
اسرائیلی صدر نے زور دے کر کہا کہ یہ اقدامات ’دہشت گردی کا بدلہ‘ اور مشرق وسطیٰ میں ’ایک اور ایرانی ایجنٹ‘ پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
گذشتہ سال اگست میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’ان حالات میں ایک فلسطینی ریاست امن سے رہنے کے بجائے اسرائیل کے خاتمے کے لیے ایک لانچنگ پیڈ ہو گی۔‘ واضح رہے کہ فلسطینی اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک ریاست کے خواہاں نہیں ہیں؛ وہ اسرائیل کی جگہ ایک ریاست کے خواہاں ہیں۔‘
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات ’حماس کے لیے انعام‘ کے مترادف ہیں اور غزہ میں جنگ بندی کے حصول اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
لیکن عملی طور پر ان ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کیا مطلب ہے؟

ریاست کو تسلیم کرنے سے خود مختاری تک
دوسرے ممالک کی طرف سے کسی بھی ریاست کو تسلیم کرنا اس کے وجود کے چار اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ کسی بھی ریاست کے وجود کے لیے سب سے فیصلہ کن چیز نہیں ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کی تناظر سے دیکھیں تو ریاست کے تین اہم عناصر ہوتے ہیں سرحد، آبادی اور خودمختاری۔
ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں یہ تینوں عناصر پائے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں صرف چند حکومتوں کے جانب سے تسلیم کیے جانے کے وہ ایک فعال ریاست کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال تائیوان ہے جسے چین اپنا ایک باغی صوبہ تصور کرتا ہے اور اس کے پاس اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت بھی نہیں۔
دوسری جانب ایسی کئی ناکام ریاستیں ہیں جو اقوام متحدہ اور اس کے ارکان کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے باوجود اپنی سرزمین اور سرحدوں پر مکمل کنٹرول نہیں رکھتیں اور نہ ہی ان کے پاس اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کی ضمانت دینے کی اہلیت ہے۔
مزید ریاستوں کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکومتیں فلسطینی اتھارٹی کو ایک اہم مرتبہ کے طور پر تسلیم کرتی ہیں۔ وہ انھیں معمول کے سفارتی تعلقات قائم کرنے، سفارت خانے کھولنے اور مختلف شکلوں میں باہمی تعاون کے لیے اہل سمجھتی ہیں۔
تاہم، یہ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ میں مکمل نمائندگی کے لیے کافی نہیں ہو گا کیونکہ اقوامِ متحدہ میں نئے اراکین کی شمولیت کے لیے دیگر چیزوں کے ساتھ سلامتی کونسل کی منظوری بھی ضروری ہے اور اس کے لیے یا تو انھیں اپنے حق میں ووٹ میں درکار ہیں یا کم از کم امریکہ ووٹنگ میں شرکت نہ کرے۔
اپریل 2024 میں امریکہ نے فلسطینی ریاست کو رکن کے طور پر شامل کرنے کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کی رکنیت کی صورت میں فلسطین کو دوسرے رکن ممالک کی طرح حقوق اور ذمہ داریوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی لیکن یہ زمینی صورت کو بہتر بنانے اور ایک فعال ریاست بننے کے لیے کافی نہیں۔

اس مقصد کے لیے غزہ کی جنگ کے خاتمے سے آگے بڑھ کر، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان عشروں پر محیط تنازع کو حل کرنا بھی ناگزیر ہو گا۔ اسرائیل نہ صرف فلسطینی علاقوں کی سرحدوں کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ کئی بین الاقوامی ادارے اسے ایک قابض طاقت قرار دیتے ہیں۔
طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کی امیدیں زیادہ تر دو ریاستی حل کے گرد ہی مرکوز رہی ہیں، لیکن اس پر مستقل پیش رفت ہمیشہ کئی پیچیدہ مسائل کی وجہ سے رکی رہی ہے۔
ان مسائل میں بالخصوص ان اسرائیلی بستیوں کا مستقبل شامل ہے جو 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمینوں پر مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں تعمیر کی گئیں اور جہاں آج قریباً سات لاکھ افراد مقیم ہیں۔
یروشلم کا درجہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
فلسطینی اپنے ملک کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں چاہتے ہیں لیکن اسرائیل نے وہاں اپنا دارالحکومت قائم کر رکھا ہے حالانکہ عالمی برادری کی اکثریت اسے تسلیم نہیں کرتی اور اس کا موقف ہے کہ یروشلم کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل کے اس مؤقف کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہودیت کے کئی مقدس مقامات مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔ مزید یہ کہ 1948 کی جنگ کے بعد قریب بیس برس تک شہر تقسیم رہا، جس دوران اردن کے کنٹرول میں رہنے والی مغربی دیوار پر اسرائیلی یہودیوں کو عبادت کی اجازت نہیں تھی۔
ایک اور مسئلہ فلسطینیوں کا ان لوگوں کے واپسی کا حق مانگنا ہے جو اسرائیل کے ساتھ جنگوں کے دوران ان سرزمینوں سے نکل گئے یا نکال دیے گئے۔
ایک اور اہم اور متنازع مسئلہ فلسطینی پناہ گزینوں کے واپسی کے حق کا ہے۔ اندازاً سات لاکھ فلسطینی پہلی عرب - اسرائیلی جنگ کے بعد اپنے گھروں سے بے دخل یا ہجرت پر مجبور ہوئے اور آج ان کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

فلسطینی قیادت کا مطالبہ ہے کہ یہ لوگ نہ صرف آئندہ ممکنہ فلسطینی ریاست میں بلکہ اسرائیل کی موجودہ حدود میں بھی آباد ہو سکیں تاہم اسرائیل اسے قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔
فلسطینی سیاست کے اندرونی اختلافات بھی امن عمل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اوسلو معاہدوں کے بعد حماس نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف خودکش حملے شروع کیے تاکہ یاسر عرفات اور اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم یتزحک رابن کے امن اقدامات کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ 1995 میں ایک اسرائیلی انتہا پسند کے ہاتھوں رابن کا قتل بھی اسی سلسلے میں امن کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔
2007 میں اسرائیل کے غزہ سے انخلا کے بعد، حماس نے فلسطینی اتھارٹی سے مسلح تصادم میں غزہ پر قبضہ کر لیا، جس میں 188 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سے فلسطینی علاقوں پر دو مختلف گروہوں کا الگ الگ کنٹرول قائم ہے جو نہ صرف فلسطینی خودمختاری کے حصول میں رکاوٹ ہے بلکہ عالمی برادری کے سامنے فلسطینیوں کو ایک متحدہ آواز کی صورت میں بھی پیش کرنے سے محروم کر رہا ہے۔