غزہ کی محصور عوام کے لیے امدادی سامان لے جانے والے ’گلوبل صمود فلوٹیلا 2025‘ کو اسرائیلی بحریہ نے رات کی تاریکی میں گھیرے میں لے کر روک دیا، جس کے بعد متعدد کارکنوں اور مبصرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس فلوٹیلا میں بعض پاکستانی شخصیات بھی شامل تھیں، جن میں سینیٹر مشتاق احمد کی گرفتاری کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔یہ امدادی بیڑہ سپین سے روانہ ہوا تھا جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ غزہ کے محاصرے کو توڑ کر انسانی بنیادوں پر ادویات، خوراک اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کی جائیں۔ فلوٹیلا میں شامل درجنوں کارکنان اور نمائندے مختلف ممالک سے آئے تھے، جن میں پاکستان کے تین اہم افراد بھی شامل تھے۔ ان شخصیات نے نہ صرف پاکستانی عوام کی نمائندگی کی بلکہ عالمی سطح پر فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔سفر کے دوران فلوٹیلا کو متعدد انتظامی اور سکیورٹی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم سب سے بڑا بحران اس وقت پیدا ہوا جب اسرائیلی بحریہ نے جہازوں کو روک کر ان پر سوار افراد کو حراست میں لینا شروع کیا۔ بعض جہازوں پر چڑھائی کے بعد عملے کو علیحدہ کر دیا گیا، جبکہ امدادی سامان ضبط کر لیا گیا۔
اگرچہ سرکاری سطح پر کسی پاکستانی کو اس فلوٹیلا کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا، تاہم چند شخصیات نے ذاتی حیثیت میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید شاہ اور مبصر سید عزیر نظامی شامل ہیں۔ بعض دیگر افراد کے بارے میں بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس مشن کا حصہ تھے، تاہم ان کی موجودگی کی حتمی تصدیق تاحال نہیں ہو سکی۔
سینیٹر مشتاق احمد خانسینیٹر مشتاق احمد خان کا شمار پاکستان کے اُن نمایاں سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو انسانی حقوق اور مظلوم اقوام کے مسائل پر دوٹوک مؤقف رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے سینیٹر رہ چکے ہیں اور اپنے پارلیمانی دور میں بارہا فلسطین، کشمیر اور افغانستان جیسے عالمی انسانی بحرانوں پر مؤثر آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ تعلیم اور نوجوانوں کی تربیت سے بھی ان کی خصوصی دلچسپی رہی ہے۔
مشتاق احمد خان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے۔ (فوٹو: انسٹاگرام مشتاق احمد حان)
ان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے اور وہ ایک فعال سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ فلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لیے انہوں نے 2025 میں ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ میں پاکستان کی نمائندگی کا فیصلہ کیا اور پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ ان کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان فلسطینی عوام کی حمایت میں صرف زبانی جمع خرچ پر یقین نہیں رکھتا، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فلوٹیلا کی سرگرمیوں سے مسلسل آگاہ کرتے رہے، اور پاکستان میں وہ اور ان کی اہلیہ مل کر ’سیو غزہ تحریک‘ کے نام سے ایک مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔سید عزیر نظامیسید عزیر نظامی فلوٹیلا کے مبصر جہاز پر پاکستان کے دوسرے نمائندے کے طور پر شریک ہوئے۔ ان کا بنیادی کردار ایک غیر جانبدار مبصر (observer) کا تھا تاکہ دنیا کو یہ باور کروایا جا سکے کہ فلوٹیلا کا مقصد خالصتاً انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانا تھا، نہ کہ کوئی سیاسی یا عسکری ایجنڈا۔عزیر نظامی صحافتی سماجی کارکن ہیں اور اسی پس منظر کی وجہ سے بین الاقوامی مبصرین کے ہمراہ اس مشن کا حصہ بنے۔ ان کا مقصد فلوٹیلا سے متعلق حقائق کو غیر جانب دارانہ انداز میں دنیا کے سامنے لانا تھا۔پیر مظہر سعید شاہپیر مظہر سعید شاہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اطلاعات ہیں۔ ان کا شمار اُن سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے جو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی انسانی مسائل پر بھی مؤثر آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے پُرجوش حامی رہے ہیں اور مختلف قومی و بین الاقوامی فورمز پر مظلوم اقوام کے حق میں آواز بلند کرتے آئے ہیں۔
عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی ممالک نے اسرائیلی اقدام پر تنقید کی۔ (فوٹو: انسٹاگرام)غ
فلسطینی عوام سے ان کی وابستگی کے باعث وہ ’گلوبل صمود فلوٹیلا 2025‘ میں شامل ہوئے تاکہ دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ کشمیری عوام بھی فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عالمی ردعملاسرائیلی کارروائی کے بعد پاکستان میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ وزارت خارجہ نے فلوٹیلا کو روکنے اور پاکستانی نمائندوں کو حراست میں لینے کی شدید مذمت کی۔ وزارت کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد لے جانے والے کارکنوں کی سلامتی کی ذمہ داری بین الاقوامی قوانین کے تحت اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی ممالک نے اسرائیلی اقدام پر تنقید کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ یورپی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی رہنماؤں نے اسرائیل سے شرکاء کی فوری رہائی اور غزہ کے محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ عالمی میڈیا نے بھی فلوٹیلا پر اسرائیلی کارروائی کو نمایاں طور پر رپورٹ کیا۔