اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے جمعرات کے روز نیشنل پریس کلب کے اندر داخل ہو کر مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی اور صحافیوں سمیت کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔نیشنل پریس کلب کے باہر اس وقت کشمیر کمیونٹی سمیت مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاج جاری تھا۔ اسلام آباد پولیس کے اہلکار بھی اس موقع پر موجود تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق جب مظاہرین نے نعرے بازی شروع کی تو پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا آغاز کر دیا۔
مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافی دانش ارشاد نے اردو نیوز کو بتایا ’اس دوران کچھ مظاہرین پریس کلب کے اندر داخل ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس کی ایک بڑی تعداد بھی پریس کلب کے احاطے میں گھس آئی اور وہاں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا۔ پولیس اہلکاروں نے صحافیوں پر بھی تشدد کیا۔‘نیشنل پریس کلب کے قائم مقام صدر احتشام الحق نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس واقعے کو ’انتہائی افسوسناک اور ناقابلِ قبول‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا ’اسلام آباد پولیس نے تاریخ میں پہلی بار نیشنل پریس کلب کے اندر داخل ہو کر صحافیوں پر تشدد کیا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ برداشت عمل ہے۔ باہر احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل پریس کلب اس واقعے کے خلاف جلد اپنا لائحہ عمل جاری کرے گا۔دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے نیشنل پریس کلب میں پولیس کے گھسنے اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف آج شام احتجاجی مظاہرہ کرے گی۔پولیس نے کشمیری کمیونٹی کے مظاہرے سے کئی خواتین کو بھی حراست میں لیا ہے۔ کشمیر کمیونٹی کے افراد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ہونے والے حالیہ مظاہرے کے دوران ہلاکتوں کے خلاف اور ان مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔
صحافیوں پر پولیس تشدد کے واقعے کے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری پریس کلب پہنچ گئے جہاں انہوں نے اس واقعے پر صحافی برادری سے معافی مانگ لی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اس واقعے کی انٹرنل انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔