پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کے پانچویں روز حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کی تصدیق کی۔
جمعرات کو وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی ہدایت پر اسلام آباد سے مظفرآباد پہنچنے والی مذاکراتی ٹیم نے عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے۔
گزشتہ رات مذاکرات کے پہلے دور کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے دیگر ارکان سے مشاورت کے لیے مذاکرات کو روک دیا تھا۔
مذاکراتی ٹیم میں کون کون شامل ہے؟
اسلام آباد سے مظفرآباد پہنچنے والی مذاکراتی ٹیم میں وزیر امور کشمیر امیر مقام، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، احسن اقبال، راجہ پرویز اشرف، قمر الزمان کائرہ، سردار محمد یوسف، پاکستان کے زیرانتطام کشمیر کے سابق صدر مسعود خان شامل ہیں۔ جبکہ مظفرآباد حکومت کے دو وزرا فیصل ممتاز راٹھور اور دیوان علی چغتائی بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے اس کی کور کمیٹی کے تین ارکان راجہ امجد علی خان ایڈووکیٹ، شوکت نواز میر اور انجم زمان اعوان مذاکرات کر رہے ہیں۔
وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کی تصدیق کی۔ فوٹو: حمزہ نصیر
مظاہرین اس وقت کہاں ہیں؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے تمام اضلاع میں آج پانچویں روز بھی کاروبار زندگی معطل ہے، کاروباری مراکز بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک نہیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے تمام اضلاع سے مظاہرین کو دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد ضلع نیلم اور دیگر علاقوں سے قافلے مظفرآباد پہنچ گئے تھے۔
پونچھ اور میرپور ڈویژن سے آنے والے لانگ مارچ کے شرکاء اس وقت کوہالہ کے قریب رکے ہوئے ہیں اور ان کی قیادت عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما سردار عمر نذیر کر رہے ہیں۔
کشمیر میں گزشتہ چھ دن سے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بند ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مذاکرات سے قبل عوامی ایکشن کمیٹی نے یہ سروسز بحال کرنے کی شرط بھی رکھی تھی۔
کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں: طارق فضل چوہدری
مذاکرات میں شریک وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چودہدی نے جمعرات کو ایکس پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں۔ اُن کے زیادہ تر مطالبات جو عوامی مفاد میں ہیں، پہلے ہی منظور کیے جا چکے ہیں۔ باقی چند مطالبات جن کے لیے آئینی ترامیم درکار ہیں، ان پر بات چیت جاری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ہماری امید ہے کہ ایکشن کمیٹی تمام مسائل کو پُرامن مکالمے کے ذریعے حل کرے گی۔‘
عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے تین رہنما مذاکرات میں شریک ہیں۔ فوٹو: طارق فضل چوہدری/ ایکس
مظاہرین اور پولیس کے تصادم میں کتنا نقصان ہوا؟
29 ستمبر کو شروع ہونے والے اس احتجاج کے پہلے تین دنوں میں مظفرآباد، دھیرکوٹ اور ڈڈیال میں پرتشدد واقعات پیش آئے تھے۔ بدھ کو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی حکومت نے ان احتجاجی مظاہروں میں 9 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی جس میں تین پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کے 10 سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں اور مظاہرین نے ہلاک ہونے والے افراد کے نماز جنازہ بدھ کو مظفرآباد میں ادا کی تھی۔ اس سے قبل 29 ستمبر کو مظفرآباد میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ایک نوجوان محمد سدھیر کی نماز جنازہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پیر اور منگل کی درمیانی شب ادا کی گئی تھی۔
احتجاجی مظاہروں میں جھڑپوں کے دوران پولیس اور عام شہری بڑی تعداد میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے زخمی اہلکاروں کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں جمعرات کو وزیر داخلہ محسن نقوی نے ان کی عیادت کی۔
نیشنل پریس کلب کے سامنے مظاہرہ
جمعرات کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے عوامی ایکشن کمیٹی راولپنڈی و اسلام آباد نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے بعد پولیس نے مظاہرے میں شریک افراد کو گرفتار کر کے تھانہ سیکریٹریٹ منتقل کر دیا تھا۔ تاہم اس واقعے کے چند گھنٹے بعد مظاہرین کو رہا کر دیا گیا تھا۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کے پانچویں روز بھی شہری سڑکوں پر ہیں۔ فوٹو: حمزہ نصیر
اسی دوران اسلام آباد پولیس نے نیشنل پریس کلب میں داخل ہو کر صحافیوں اور وہاں کے ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد صحافیوں نے پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔
اس واقعے کے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نیشنل پریس کلب پہنچے تھے جہاں انہوں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں سے معذرت بھی کی تھی۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں اس واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔