بلوچستان: اراکین اسمبلی کے نجی محافظوں کی حوصلہ شکنی، سرکاری سکیورٹی فراہم ہوگی

image
بلوچستان اسمبلی میں منظور کیے گئے نئے قانون کے تحت سپیکر کو کم از کم 10، جبکہ ڈپٹی سپیکر، صوبائی وزرا اور ان کے مساوی عہدہ رکھنے والے مشیروں کو کم از کم آٹھ پولیس یا لیویز اہلکار فراہم کیے جائیں گے۔

پارلیمانی سیکریٹریوں کو کم از کم دو جبکہ باقی تمام اراکین کو کم از کم چھ پولیس یا لیویز اہلکار دیے جائیں گے۔

جمعرات کو سپیکر عبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت اجلاس میں صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے وزیراعلیٰ کی جانب سے بلوچستان صوبائی اسمبلی خصوصی حقوق 1975 کے ایکٹ میں ترمیم اور اضافہ کا قانون پیش کیا جسے بلوچستان صوبائی اسمبلی خصوصی ایکٹ 2025 کا نام دیا گیا ہے۔

قانون کے تحت ایک رکن اپنی مدت رکنیت کے دوران حسب خواہش موذوں اور مناسب سکیورٹی کا حقدار ہوگا۔ حکومت ضرورت کے مطابق جتنے بھی اہلکار مناسب سمجھے تعینات کرے۔

اس سلسلے میں درجہ بندی کی گئی جس کے تحت سپیکر، ڈپٹی سپیکر، صوبائی وزرا اور وزیراعلیٰ کے مشیروں کے لیے کم از کم سکیورٹی کا تعین کیا گیا ہے۔

قانون ایوان میں پیش کرتے وقت اس کے اغراض و مقاصد میں بتایا گیا ہے کہ یہ قانون اراکین اسمبلی کو ممکنہ خطرات، نقصانات یا تشدد سے محفوظ رکھنے، اسمبلی کی کارروائی کو پرامن طور پر جاری رکھنے اور کسی قسم کے خلل سے بچنے کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔

حکومت کے مطابق اراکین اسمبلی اپنی عوامی حیثیت، سیاسی وابستگیوں یا پالیسی مؤقف کی وجہ سے خطرات، حملوں یا ہراسانی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کو سکیورٹی فراہم کرنا جمہوری اداروں کے استحکام، وقار اور عوامی اعتماد کے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے۔

بل کے اغراض و مقاصد میں مزید کہا گیا کہ بعض منتخب اراکین ذاتی محافظ رکھتے ہیں جو اکثر سرکاری قواعد سے ناواقف ہوتے ہیں اور بعض اوقات باعث شرمندگی بن جاتے ہیں۔ اس لیے ناگہانی صورتحال سے بچنے کے لیے تربیت یافتہ اہلکاروں کی تعیناتی تجویز کی گئی ہے۔

اسمبلی کے احاطے میں نجی محافظوں کے ساتھ داخلے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی (فوٹو: اے ڈبلیو ٹی)

حکومت کے مطابق یہ بل اراکین اسمبلی کے تحفظ، اسمبلی کی کارروائی کو کسی قسم کے رکاوٹ یا خلل سے بچانے ، حساس معلومات کی حفاظت اور نجی محافظ رکھنے کی حوصلہ شکنی کے لیے بنایا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ بلوچستان کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ  پہلے حکومتی اراکین کو تو بآسانی سکیورٹی مل جاتی تھی لیکن اپوزیشن ارکان اکثر اس حوالے سے شکایات کرتے تھے۔

ان کے مطابق نئے قانون کے بعد محکمہ داخلہ کے لیے یہ فیصلہ انتظامی صوابدید کے بجائے قانونی دائرے میں کرنا آسان ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی سکیورٹی نہ ملنے یا کم تعداد میں ملنے کی وجہ سے بعض اراکین ذاتی محافظ رکھتے تھے جو غیر تربیت یافتہ ہوتے تھے جن کی وجہ سے کئی تنازعات بھی پیدا ہوئے۔ اب اسمبلی کے احاطے، وزیراعلیٰ اور سول سیکریٹریٹ اور دیگر اہم دفاتر میں وزرا یا اراکین کی نجی محافظوں کے ساتھ داخلے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US