غزہ کا محاصرہ توڑ کر امداد پہنچانے کے لیے روانہ کیے گئے مشن گلوبل صمود فلوٹیلا میں دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ لاہور کے ایک نوجوان سماجی کارکن سید محمد عزیر نظامی بھی شامل تھے۔گذشتہ دنوں اسرائیلی بحریہ نے رات کی تاریکی میں گلوبل صمود فلوٹیلا کو گھیرے میں لے کر روک دیا جس کے بعد متعدد کارکنوں اور مبصرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم ایک کشتی وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہی جس میں لاہور کے نوجوان سماجی کارکن سید محمد عزیر نظامی بھی شامل تھے۔ یہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ قبرص پہنچے ہیں، تاہم انہیں اب ٹرانزٹ ویزا کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سید محمد عزیز نظامی نے نہ صرف گلوبل صمود فلوٹیلا 2025 کے خطرناک مشن میں حصہ لیا بلکہ وہ اسرائیلی بحریہ کو چکما دے کر ان کے حملوں سے بچ نکلنے میں بھی کامیاب رہے۔عزیز نظامی ایک سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ایک چھوٹا کاروبار چلاتے ہیں اور دینی تعلیمات کے معلم بھی ہیں۔ ان کے مطابق یہ عرصہ دراز سے سماجی کاموں میں سرگرم ہیں۔انہوں نے اردو نیوز کو اپنے بارے میں بتایا کہ ’ملک میں سیلاب، زلزلے یا کسی بھی آفت کی صورت میں ہم متاثرین کی مدد کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ میرے دل کے قریب ہے۔ کاروبار اور مقامی سطح پر سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غزہ کے لیے بھی مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔ جو ہم سے بن سکتا ہے کم از کم وہ کر رہے ہیں۔‘سید محمد عزیر نظامی شادی شدہ ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں لاہور میں اس وقت ان کے انتظار میں ہیں۔ ان کے 75 سالہ والد پاکستان نیوی سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور یہ ان کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ گلوبل صمود فلوٹیلا میں شمولیت کا فیصلہ ان کے لیے ایک اخلاقی پکار تھی۔سپین سے روانہ ہونے والا یہ قافلہ 50 سے زائد چھوٹی کشتیوں پر مشتمل تھا جس میں 500 سے زیادہ کارکن، سیاستدان اور انسانی حقوق کے علمبردار شامل تھے جن میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ بھی سوار تھے۔ مشن کا مقصد غزہ کے لیے کھانا، ادویات اور امدادی سامان پہنچانا تھا۔عزیز نظامی کی کشتی ابتدا میں آبزرور بوٹ تھی جس کا کام قافلے کی حفاظت اور نگرانی کرنا تھا۔ وہ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’ہماری کشتی پہلے آبزرور بوٹ تھی۔ ہمارا کام یہ تھا کہ ہم صرف چیلنجز اور مسائل کا مشاہدہ کر کے باقی کشتیوں کی حفاظت کو یقینی بناتے تھے اور ہمارا رابطہ گلوبل صمود فلوٹیلا کی مرکزی ٹیم کے ساتھ تھا۔‘
گلوبل صمود فلوٹیلا کو سمندری راستوں میں کئی طرح کے مشکلات کا سامنا بھی رہا (فوٹو: اے ایف پی)
اس دوران حالات نے نیا موڑ لیا اور مرکزی کشتی کا انجن خراب ہو گیا۔ یوں عزیز نظامی کی کشتی کو مدر بوٹ کا کردار سونپا گیا۔ ان کے بقول ’ہمارے پاس فیول زیادہ تھا اور کھانے پینے کی اشیا بھی زیادہ تھیں۔ دو دنوں تک مسلسل ہم اشیائے خورد و نوش پورے قافلے میں تقسیم کرتے رہے۔‘
ان کے مطابق مدر بوٹ قافلے کے سب سے آگے رہتی ہے یا درمیان میں رہتی ہے اور آبزرور بوٹ سب سے پیچھے رہتی ہے۔ مدر بوٹ کا سٹیٹس پانے کے بعد وہ درمیان میں رہے۔گلوبل صمود فلوٹیلا کو سمندری راستوں میں کئی طرح کے مشکلات کا سامنا بھی رہا، جبکہ فطرت بھی امتحان لیتی رہی۔ سمندری سفر کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں عزیر نظامی بتاتے ہیں کہ ’سمندر میں ہم نے بہت سخت طوفانوں کا سامنا بھی کیا۔ تقریباً 8 سے 10 فٹ لہریں تھیں جنہیں ہم نے عکس بند کر کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی لگایا۔ راستے کی تمام صعوبتیں ہم نے برداشت کیں لیکن سب سے بڑا امتحان آخری دن کا تھا۔ ایک ہفتے سے ڈرونز ہماری نگرانی کر رہے تھے۔‘ جیسے جیسے کشتیاں غزہ کے ساحل کے قریب بڑھتی گئیں اسرائیلی بحریہ متحرک ہوتی گئی۔ آخری روز اسرائیلی بحریہ نے واٹر کینن سے حملہ کیا اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ اس حوالے سے عزیز بتاتے ہیں ’ایک ہفتے سے ہماری کشتیوں کی ڈرون کے ذریعے میپنگ اور سرویلنس کی جا رہی تھی۔ آخری دن انہوں نے ہم پر واٹر کینن استعمال کیا۔ ہمیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ پھر کشتیوں میں آ کر کارکنان کو گرفتار کیا۔‘
حملے کے روز عزیر نظامی سینیٹر مشتاق اور دیگر سے بطور مدر بوٹ رابطے میں تھے (فوٹو: سینیٹر مشتاق ایکس اکاؤنٹ)
عزیز کی موٹر بوٹ تیز رفتار تھی جس کی بدولت وہ اسرائیلی بحریہ کو چکما دینے میں کامیاب رہے۔ اسرائیلی بحریہ سے بچ نکلنے کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری موٹر بوٹ تھی۔ جو تیزی سے سفر کرتی ہے۔ باقی کشتیاں پانی والی تھیں۔ ان کی سپیڈ تیز نہیں ہو سکتی۔ یوں ہم اسرائیلی نیوی کو چکما دینے میں کامیاب ہوئے۔‘
حملے کے روز وہ سینیٹر مشتاق اور دیگر سے بطور مدر بوٹ رابطے میں تھے۔ جب حملہ شدید ہوتا گیا اور گرفتاریاں ہونے لگیں تو انہوں نے آخری بار سینیٹر مشتاق کی کشتی سے رابطہ قائم کیا اور ان سے ان کا قیمتی سامان حاصل کر لیا۔ اس تگ و دو کے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’سینیٹر مشتاق کے ساتھ ہم بطور ابزرور بوٹ اور مدر بوٹ مسلسل رابطے میں تھے۔ ہم نے سب سے آخر میں بدھ کے روز ان کی کشتی کو مدد فراہم کی تھی جہاں ہم نے اس کشتی میں سوار کارکنان کا ضروری سامان حاصل کیا۔ اس میں ان کے دستاویزات اور دیگر سامان تھا۔ جو ہم ان کے سفارتخانے پہنچائیں گے۔‘حملے کے زون سے بچ نکلنے کے بعد بھی اسرائیلی ڈرونز اور بحری جہاز ان کا پیچھا کرتے رہے۔’بچ نکلنے کے بعد ہمارا ایک گھنٹے تک مسلسل پیچھا کیا گیا۔ بحری جہازوں اور ڈرونز کے ذریعے ہمیں پکڑنے کی کوشش ہوتی رہی، تاہم ہم قبرص کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔‘
عزیز نظامی سینیٹر مشتاق اور دیگر گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے کام جاری رکھنا چاہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اس وقت عزیر نظامی قبرص پہنچ کر ویزے کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ’ہم رات کو یہاں پہنچے ہیں۔ یہاں پاکستانی سفارتخانہ نہیں ہے البتہ قونصلیٹ ہے۔ اسی کے ذریعے ہم ویزا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرانزٹ ویزا لے کر ہم پاکستان جائیں گے۔‘
ان کا مشن یہیں ختم نہیں ہوا۔ وہ سینیٹر مشتاق اور دیگر گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ان کی رہائی کے لیے گلوبل صمود فلوٹیلا کی لیگل ٹیم مسلسل کام کر رہی ہے۔ قبرص سے بھی ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے دو سے تین روز میں سینیٹر مشتاق کی رہائی ہو جائے گی۔‘