آن لائن ملازمتوں کے بہانے ’حساس معلومات کا حصول‘، حکومت کی فری لانسرز کو وارننگ

image
پاکستان میں ہزاروں نوجوان فری لانسنگ کے ذریعے مختلف نوعیت کے کام انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے نوجوان بیرونِ ملک کمپنیوں کو ویڈیوگرافی، فوٹوگرافی اور دیگر تخلیقی خدمات فراہم کر کے زرمبادلہ کماتے ہیں۔

لیکن اگر آپ کسی ایسی کمپنی کے ساتھ کام کر رہے ہوں جو بظاہر آپ سے ویڈیوز یا تصاویر بنوانی چاہتی ہو اور دراصل انہیں اپنے خفیہ مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہو اور آپ کو اس کا علم نہ ہو تو یہ نہ صرف خطرناک بلکہ غیرقانونی بھی ہو سکتا ہے۔

اسی خدشے کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں ایک الرٹ جاری کیا ہے جو شہریوں کے موبائل نمبروں پر بذریعہ ایس ایم ایس بھیجا گیا ہے اور ڈائل ٹون پر بھی سنایا جا رہا ہے۔

حکومت نے خبردار کیا ہے کہ ’بعض غیرملکی خفیہ ایجنسیاں آن لائن جاب آفرز کے ذریعے نوجوانوں کو سروے یا تحقیق کے نام پر ایسے کام دیتی ہیں جن میں قومی منصوبوں اور حساس تنصیبات کی تصاویر یا لوکیشن حاصل کرتی ہیں۔‘

’یہ معلومات بعد میں وہ کمپنیاں اپنے ملکی مفادات کے لیے اور پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی غیرمعروف یا مشتبہ تنظیم کے ساتھ کام کرنے سے گریز کریں۔‘

اردو نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وفاقی حکومت کے خدشات کس حد تک درست ہیں، فری لانسنگ کرنے والے شہری کن مسائل کا سامنا کر سکتے ہیں اور اس دوران انہیں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں؟

پاکستان فری لانسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ابراہیم امین نے اعتراف کیا کہ درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں فری لانسرز کو مختلف طریقوں سے دھوکہ دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’بعض صورتوں میں ان سے ایسا کام کروایا گیا جس کے اصل مقاصد ان کے علم میں نہیں تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بیرونی دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے سے متعلق اُن کے پاس کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔‘

ان کے مطابق ’فری لانسنگ کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے سینکڑوں مقامی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز دستیاب ہیں جن کی تصدیق ممکن ہے اور جو قابلِ اعتماد اور حقیقی نوعیت کا کام فراہم کرتے ہیں۔‘

حکومتِ پاکستان نے شہریوں کے موبائل نمبروں پر بذریعہ ایس ایم ایس الرٹ بھیجا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

ابراہیم امین نے یہ بھی تسلیم  کیا کہ ہمارے کئی نوجوان اس طرح کے دھندوں کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن حکومت کو چاہیے کہ فری لانس خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو رجسٹر کرے۔ دوسرے ممالک بھی فری لانسنگ کمپنیوں کو رجسٹر کیا جاتا ہے، اسی لیے وہاں ایسے کیسز کم دیکھنے میں آتے ہیں۔‘

’ہم نے متعلقہ وفاقی وزیر سے بھی بات کی ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ فری لانسرز کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں تاکہ اس قسم کے کیسز میں کمی آئے۔‘

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر ونگ عمار جعفری نے اردو نیوز سے اپنی گفتگو میں بتایا کہ یہ فراڈ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں رونما ہو رہے ہیں اور ایسے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سکیمرز سوشل انجینیئرنگ کے ذریعے پہلے نشانہ بننے والے ملک یا برادری کی ضروریات اور کمزوریوں کو جانچتے ہیں اور پھر اسی حساب سے جعلی سکیم لانچ کرتے ہیں۔‘

انہوں نے یہ امکان بھی ظاہر کیا کہ ’لازم نہیں کہ یہ سکیمیں بیرونِ ملک سے ہی چلائی جائیں، یہاں سے بیٹھ کر بھی کوئی فرد خود کو بیرونی کمپنی کا نمائندہ بن کر شہریوں کو اپنے جال میں پھنسا سکتا ہے۔‘

اسد الرحمان نے بتایا کہ زیادہ تر اُن افراد کو ہدف بنایا جاتا ہے جو براہِ راست حساس اداروں سے وابستہ نہیں ہوتے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

سرکاری اداروں کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے اور انہیں سائبر سکیورٹی کی تربیت دینے والے ماہر محمد اسد الرحمان سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے سکیم یا لوگوں کو جال میں پھنسانے والے واقعات ریاستی حمایت یافتہ یا سٹیٹ سپانسرڈ ایکٹرز بھی کرتے ہیں۔ ایسے واقعات دنیا کے مختلف ممالک میں پیش آتے ہیں۔

اسد الرحمان نے حکمتِ عملی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’عموماً ایسے عناصر سب سے پہلے ریاستی اداروں میں کام کرنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم تربیت یافتہ اہلکار ہونے کے باعث وہ عام طور پر ایسے جال میں نہیں پھنستے۔ اسی لیے یہ عناصر زیادہ تر اُن افراد کو ہدف بناتے ہیں جو براہِ راست حساس اداروں سے وابستہ تو نہیں ہوتے مگر اُن تک جزوی رسائی رکھتے ہیں یا ان کے اردگرد آنے جانے کا موقع پاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورت میں اگر کوئی فری لانسر یا محدود رسائی رکھنے والا شخص ان کے دام میں آ جائے تو وہ نادانستہ طور پر مطلوبہ معلومات یا مواد فراہم کر سکتا ہے۔‘

انہوں نے اس امکان کی بھی نشاندہی کی کہ ’جب کوئی کمپنی یا گروہ اس طرح کے معاملات میں ملوث ہوتا ہے تو وہ مخصوص علاقوں سے زیادہ سے زیادہ افراد بھرتی کرنا چاہتا ہے تاکہ اصل افراد پسِ پردہ رہیں اور عام سطح پر بہت سے لوگ معمولی نوعیت کا کام کرتے رہیں۔ نتیجتاً اصل ملوث افراد کا پتہ چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US