کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں پی اے سی ممبرز محمد خان لہڑی، ولی محمد نورزئی، صفیہ بی بی اور رحمت صالح بلوچ، اکاؤنٹنٹ جنرل بلوچستان نصراللہ جان، وائس چانسلر خواتین یونیورسٹی (SBKWU) ڈاکٹر روبینہ مشتاق، ایڈیشنل سیکریٹری پی اے سی سراج لہڑی، ڈپٹی ڈی جی آڈٹ بلوچستان ثناءاللہ، ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ قانون سعید اقبال، چیف اکاؤنٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس، ایڈیشنل سیکریٹری فنانس، ایڈیشنل سیکریٹری پی اینڈ ڈی نے شرکت کی۔ اجلاس میں سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی، کوئٹہ (SBKWU) سے متعلق سنگین مالی اور انتظامی بے ضابطگیاں سامنے آئیں جن کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
کروڑوں روپے کے مالی نقصانات، عدم فعالیت، اور بدانتظامی پر پی اے سی کی تشویش۔
اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی سنگین غفلت کے باعث مختلف منصوبے جن کا حکم پی اے سی نے 21 مئی 2025 کو دیا تھا اور جنہیں 15 روز میں مکمل ہونا تھا، پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ان پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا، ایپروپریئشن سے متعلق مالی حسابات بھی تیار نہیں کیے گئے۔ اراکین کمیٹی نے یونیورسٹی کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
یونیورسٹی نے 2017 تا 2019 کے دوران ERP، CMS اور Oracle لائسنس کی مد میں 61.819 ملین روپے خرچ کیے، لیکن یہ سسٹمز مقررہ تاریخوں (نومبر 2017 اسے 2025 تک فعال نہ ہو سکے۔ ناقص منصوبہ بندی اور کمزور انتظامی کنٹرول کی وجہ سے یہ رقم ضائع ہو گئی۔ آڈٹ رپورٹس میں بھی ان خامیوں کی نشاندہی کی گئی مگر کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔
وظائف میں معاہدہ شکنی سے 59.090 ملین روپے کا نقصان۔
یونیورسٹی کے لیکچررز/اسسٹنٹ پروفیسرز کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے HEC کے وظائف دیئے گئے، مگر کئی افراد نہ تو تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹے، نہ ہی یونیورسٹی نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ نتیجتاً 59.090 ملین روپے کا نقصان قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑا۔ اجلاس میں یہ بات افشا ہوئی کہ بیرون ملک اسکالر شپس پر 3 ایسے لوگ بھی بھیجے گئے جو SBK کے ملازم بھی نہیں تھے جن پر کروڑں روپے خرچ کیے گئے اور یہ تینوں بیرون ملک جا کر فرار ہوگئے۔ اس کو کوئی جواب دہ نہیں ہے، ایس بی کے انتظامیہ یہ کہہ کر جان خلاصی کررہی ہے کہ یہ HEC کا ایک پروجیکٹ تھا جو اب ختم ہوچکا ہے۔
پی اے سی ممبرز رحمت صالح بلوچ، حاجی محمد خان لہڑی، حاجی ولی محمد نورزئی اور بی بی صفیہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ یہ تو اس غریب صوبے کے ساتھ ظلم ہے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
چیئرمین اصغر علی ترین نے کہا کہ ایس بی کے (SBKWU) میں ہمیشہ سے انتظامی خامیاں رہی ہیں جن سے اس تعلیمی ادارے کا مختلف سالوں کے آڈٹ رپورٹس کے مطابق کئی بلینز روپوں کے حساب کتاب واضح نہیں ہیں جو قابل گرفت ہیں۔
یونیورسٹی اثاثوں سے کرایہ کی کم وصولی 11.571 ملین روپے کا نقصان۔
یونیورسٹی کی جائیداد مختلف افراد کو بغیر قانونی لیز معاہدوں، ٹینڈرز اور سیکیورٹی کلیئرنس کے کرائے پر دی گئی، جس سے ادارے کو 11.571 ملین روپے کا نقصان پہنچا۔ PAC نے اس غیر قانونی اقدام کی شدید مذمت کی۔ ادارہ کے حکام کو اپنے ادارہ کے اثاثوں کا علم نہیں ہے کہ ان کی ادارے کی شاپس، اسٹیشنری کی دکان، کینٹینز ودیگر اثاثے کتنے ہیں۔ پی اے سی نے کام نہ کرنے والے آفیسرز کے خلاف وی سی کو سخت کارروائی کی ہدایت کی۔
ایڈوانسز کی مد میں غیر قانونی اخراجات – 9.359 ملین روپے
یونیورسٹی انتظامیہ نے مختلف مدات میں ایڈوانس کی ادائیگیاں کیں جن میں 9.359 ملین روپے کی رقم وقت پر ایڈجسٹ نہ کی گئی، جسے مالی بدانتظامی قرار دیا گیا۔
کمیٹی نے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ انتظامی بحران اور اقربا پروری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، تمام مالی بے ضابطگیوں پر ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ جن افراد نے قواعد کے برخلاف کینٹینز یا دیگر اثاثے الاٹ کیے، ان کو سخت تنبیہ کریں کہ وہ آئندہ محتاط رہیں۔ یونیورسٹی ایکٹ کے تحت گریڈ 20 کی اسامی پر جونیئر کی تعیناتی ختم کرکے سینئر کو ڈین آف فیکلٹی مقرر کیا جائے۔ یونیورسٹی کے تمام ملازمین، خاص طور پر ذیلی کیمپسز کے ملازمین کے مسائل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت سینیارٹی کے مطابق حل کیے جائیں۔ تمام ذیلی کیمپسز کو براہ راست بجٹ اور تنخواہیں فراہم کی جائیں۔
اجلاس میں انکشاف ہوا کہ پشین کیمپس میں چار سو طالبات، نوشکی کیمپس میں سات سو طالبات اور خضدار کیمپس میں پانچ سو طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہ کیمپسز غیر فعال ہونے کی وجہ سے ان ہزاروں طالبات کی تعلیم ضائع ہونے کا اندیشہ اور ان کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس بارے میں فیصلہ کیا کہ گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل، وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، وفاقی وزیر تعلیم احسن اقبال سے وفد کی صورت میں مل کر ان کیمپسز کو فعال کروانے کی استدعا کریں گے تاکہ ان ہزاروں طالبات کا مستقبل بچایا جائے اور وہ اپنے گھروں کے قریب علم کے زیور سے آراستہ ہوں۔
وظائف کی رقم کی واپسی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور HEC کی ہدایات کے مطابق کارروائی کی جائے۔ کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جائیں اور اُن کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔
چیئرمین PAC اصغر علی ترین نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی ایک حساس اور قومی ادارہ ہے، یہاں اقربا پروری، بدعنوانی اور بے ضابطگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو لوگ 10 اور 20 سال سے خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں نکال کر نئے افراد بھرتی کرنا غیر منصفانہ عمل ہے۔ ہم اس زیادتی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے اور رولز کی خلاف ورزی پر مروجہ قوانین اور ایکٹ کے تحت سخت کارروائی کی سفارش کریں گے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین، پی اے سی ممبرز حاجی محمد خان لہڑی، حاجی ولی محمد نورزئی، رحمت صالح بلوچ اور صفیہ بی بی نے واضح کیا کہ SBKWU بلوچستان کی واحد خواتین یونیورسٹی ہے، اس میں بدانتظامی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ کمیٹی نے VC کو ہدایت کی کہ تمام معاملات قواعد اور یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق چلائے جائیں، سینئرز کو رولز کے مطابق ان کا حق دیا جائے اور اس بابت ایک ماہ میں مکمل رپورٹ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو پیش کی جائے۔