آج کے دور میں ٹوکن لینے کے لئے گھنٹوں کی لائن۔۔ ہزاروں کا جرمانہ بھرو یا خواری اٹھاؤ ! ڈرائیونگ لائسنس بنوانا شہریوں کے لئے دردِ سر کیوں بن گیا؟

image

کراچی, یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور جدید شہر کہلاتا ہے، مگر جب بات ڈرائیونگ لائسنس جیسے بنیادی شہری عمل کی ہو، تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم آج بھی کسی پرانی دہائی میں کھڑے ہیں۔ شہریوں کے لیے لائسنس بنوانا اب صرف ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ اعصابی آزمائش بن چکا ہے۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وائرل پوسٹ میں شہری نے اپنی ذاتی روداد بتاتے ہوئے کہا، “میں نے بطور ذمے دار شہری فیصلہ کیا کہ مستقل لائسنس بنواؤں، دفتر سے چھٹی لی اور کلفٹن برانچ پہنچا، مگر وہاں کا نظام دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایسا لگا جیسے سارا سسٹم انیس سو نوّے کی دہائی میں اٹکا ہوا ہے۔" اس پوسٹ کے نیچے کمنٹ سیکشن میں سینکڑوں کی تعداد میں اسی قسم کے تبصرے موجود تھے جن مین شہریوں نے لائنسنس بنانے کے نظام اور عملے کے رویے کی شکایات کی تھیں۔

ٹوکن کے لیے گھنٹوں کی قطاریں

سب سے پہلا مرحلہ ہی اذیت ناک ہے. صرف ٹوکن لینے کے لیے شہریوں کو جھلستی دھوپ میں ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ نہ کوئی سایہ دار انتظام، نہ پانی، نہ کوئی واضح رہنمائی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ صرف “ٹوکن” کے لیے لائن ہوتی ہے، اصل کام تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہوتا۔

سسٹم کا فقدان اور افراتفری

کلفٹن سمیت کئی برانچز میں کوئی واضح کمپیوٹرائزڈ نظام نہیں۔ چھ کاؤنٹرز میں سے اکثر بند ہوتے ہیں، اور جو تین فعال ہوں، وہ بغیر کسی ترتیب کے کسی بھی وقت کسی کا نمبر پکار لیتے ہیں۔ اگر شہری ذرا دیر سے پہنچے تو باری ضائع. پھر سے لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ یہ بے ترتیبی اور بدانتظامی لوگوں کے صبر کا امتحان بن چکی ہے۔

افسران کا رویہ, ایک الگ مسئلہ

جیسے ہی ڈرائیونگ ٹیسٹ کا مرحلہ آتا ہے، شہریوں کو نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں کے افسران کا رویہ اکثر بدتمیزی اور تکبر سے بھرپور بتایا گیا ہے۔ “وہ آپ سے بات بھی چہرہ دیکھے بغیر کرتے ہیں، جیسے کوئی غلام سے بات کر رہا ہو.‘یہ کرو، وہ کرو’۔ نہ کوئی وضاحت، نہ کوئی رہنمائی،” ایک شہری نے شکوہ کیا۔

یہ رویہ صرف تکلیف دہ ہی نہیں بلکہ عوامی خدمت کے تصور کے سراسر منافی ہے۔

غریب طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک

سب سے دل خراش پہلو یہ ہے کہ جو لوگ مزدور یا سادہ لباس میں آتے ہیں، ان کے ساتھ رویہ مزید توہین آمیز ہوتا ہے۔ ان سے ایسے بات کی جاتی ہے جیسے وہ کوئی جرم کر کے آئے ہوں۔ سرکاری عملے کے قہقہے، چائے کے وقفے اور سست روی نے عام شہری کے دل میں سرکاری اداروں کے بارے میں مزید بدگمانی پیدا کر دی ہے۔

ٹیکنالوجی کے باوجود فرسودہ نظام

دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے “ڈیجیٹل لائسنسنگ سسٹم” اور “آن لائن اپائنٹمنٹ” کے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں، مگر زمینی حقیقت بالکل برعکس ہے۔ شہری اب بھی کاغذی چالان، لمبی لائنیں، اور غیر تربیت یافتہ عملے کے رحم و کرم پر ہیں۔

آخر کب بدلے گا یہ نظام؟

ایک ایسے دور میں جب ہر چیز آن لائن ہو چکی ہے، کراچی جیسے شہر میں لائسنس کے لیے گھنٹوں کی قطاریں اور غیر انسانی رویہ یہ سوال چھوڑ جاتے ہیں کہ آخر شہری سہولت کے نام پر کب حقیقی اصلاح ہوگی؟

ریاست کا فرض صرف قوانین بنانا نہیں بلکہ عوام کے لیے سہولت پیدا کرنا بھی ہے۔ لائسنس سسٹم کو ڈیجیٹلائز کرنا، عملے کو تربیت دینا، اور شہریوں کے ساتھ باعزت سلوک یقینی بنانا وقت کی فوری ضرورت ہے۔ ورنہ کراچی کے شہریوں کے لیے لائسنس بنوانا یونہی ایک دردِ سر ہی بنا رہے گا۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US