پشاور ہائی کورٹ نے لاپتا افراد سے متعلق کیس کے دوران ریمارکس دیئے کہ پرامن لوگوں کو تنگ کرکے نفرت بڑھائی جارہی ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور نے لاپتا افراد سے متعلق 15 درخواستوں پر سماعت کی جس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ علاوہ ازیں درخواست گزاروں کے وکلا، پولیس اور محکمہ داخلہ کے فوکل پرسن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے 15سالہ بچے کو اٹھایا گیا ہے، 25 اگست کو سی ٹی ڈی اور مقامی پولیس ان کے گھر بغیر لیڈی سرچر کے داخل ہوئی، پولیس نے 27 اگست کو ان کے 3 گھروں کو بھی جلایا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایس ایچ او اور سی ٹی ڈی حکام نے رپورٹ جمع کرائی ہے جس کے مطابق ساجد اللہ جو لاپتا شخص کا بھائی ہے وہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ 4 سال پہلے وہ گھر سے نکلا تھا جس سے اس خاندان کا اب کوئی تعلق نہیں، گھر والوں نے اخبارات میں لاتعلقی کے اشتہارات بھی دیئے، اگر اس پر شک ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے نہ کہ درخواست گزار کے گھروں کو جلایا جائے اور ان کے چھوٹے بیٹے کو اٹھا لیا جائے، ڈی سی اس میں رپورٹ جمع کرائیں تاکہ پتا چلے کہ درخواست گزار کے گھروں کو جلایا گیا کہ نہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ جو پرامن لوگ ہیں آپ ان کو بھی تنگ کرکے نفرت بڑھا رہے ہیں، ڈپٹی کمشنر بنوں اس میں رپورٹ جمع کرائیں، بعد ازاں عدالت نے لاپتا افراد کیسز میں وفاقی، صوبائی حکومت اور دیگر فریقین سے رپورٹس طلب کرلیں۔